پاکستان کے صوبہ سندھ کے وزیر داخلہ نے کراچی میں ایئرپورٹ سگنل پر چینیوں پر خود کش حملے میں ملوث ماسٹر مائنڈ نوجوان اور سہولت کار خاتون کی گرفتار ی کا دعویٰ کیا ہے ۔
واضع رہے کہ ماسٹر مائنڈ قرار دیئے جانے والے نوجوان جاوید بلوچ سکنہ وندر کو فورسز نے 16 اکتوبر 2024 کو وندر سے لاپتہ کردیا تھا اور آج انکی گرفتاری کا دعوی کیا گیا ہے ۔
سی ٹی ڈی حکام نے اپنے دعوے میں کہا ہے کہ سندھ پولیس، سی ٹی ڈی اور حساس اداروں نے کراچی میں تباہی پھیلانے کا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے 2 خودکش حملہ آوروں کو گرفتار کرلیا۔
دعوے میں مزید کہا گیا ہے کہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب حملے کے ماسٹر مائنڈ کو بھی بلوچستان کے علاقے وندر سے حراست میں لے لیا گیا۔
اب وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے درعویٰ کیا ہے کہ کراچی ایئرپورٹ سگنل پر چینی انجینئرز پر خودکش حملے میں ملوث سہولت کار خاتون کو بھی گرفتار کرلیا گیاہے۔
کراچی میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ضیا الحسن لنجار نے کہا کہ کراچی ایئرپورٹ کی حدود میں گزشتہ دنوں چین کے شہریوں پر خودکش حملہ کیا گیا، دھماکے میں 2 چینی اور پاکستانی ہلاک ہوئے تھے، حملہ آوروں نے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
انہوں نے کہا کہ ایئرپورٹ دھماکے کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی تھی، پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے خودکش حملے کی تفتیش کی، حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی اور رکشہ مالکان سے متعلق تفتیش کی گئی، خودکش بمبار اور دو سہولت کاروں کی سی سی ٹی وی سے پہچان ہوئی۔
ضیا لنجار نے کہا کہ ٹیرر فنانسنگ میں ملوث افراد کا بھی پتا لگایا گیا، کراچی سے خریدی گئی گاڑی کو حملے کے لیے تیار کیا گیا، حملے میں ملوث سہولت کار خاتون کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ کراچی کے علاقے عمر گوٹھ کے قریب آر سی ڈی ہائی وے سے ایک موٹر سائیکل پر سوار خودکش بم دھماکے کے ماسٹر مائنڈ جاوید عرف سمیر اور ایک خاتون ساتھی گل نسا کو گرفتار کیا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ خودکش بم دھماکے میں جاوید عرف سمیر براہ راست ملوث تھا جب کہ گل نسا نے سہولت کاری کی، تیسرے ساتھی کی تلاش جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کی ہم عزت کرتے ہیں، بی ایل اے انہیں استعمال کرکے گھٹیا حرکتیں کر رہی ہے، ہم ایک ایسی ثقافت رکھتے ہیں جس میں خواتین کی بہت عزت کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گاڑی میں نصب بارودی مواد کا وزن 30 سے 40 کلو تھا، گاڑی کو حب یا اس سے آگے کسی علاقے میں لے جایا گیا، 4 اکتوبر 2024 کو یہ گاڑی حب سے کراچی لائی گئی۔
صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جاوید نامی شخص سارے معاملات ہینڈل کرتا رہا، اسی نے ریکی کی تھی، دھماکے سے قبل حملہ آور باہر والے ایریا میں تھے، رات 11 بجکر 2 منٹ پر خودکش حملہ کیا گیا، خودکش بمبار کی شناخت اس کے ہاتھ سے ہوئی، خودکش بمبار کا نام شاہ فہد عرف آفتاب تھا، دھماکے کی جگہ سے گاڑی کے چیچز اور نمبر پلیٹ ملی تھی، گاڑی ایک شوروم سے 71 لاکھ روپے میں خریدی گئی، گاڑی کے لیے پیسے بینک کے ذریعے ٹرانسفر ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مزید تحقیقات سے پتا چلا کہ گاڑی کے ساتھ ایک رکشہ بھی تھا، رکشے والے کا نام فرحان اور اس کے ساتھ محمد شریف نامی شخص تھا، بہت سے حساس معاملات ہیں، مزید تحقیقات کر رہے ہیں، بیرونی سازشوں پر نظر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس پر کام کرنے والی سی ٹی ڈی ٹیم کے لیے 5 کروڑ روپے انعام کا اعلان کرتا ہوں، ان کے لیے انعام کی سفارش کردی، افسران کے لیے قائد اعظم میڈل اور پاکستان پولیس میڈل کی سفارشات کردی ہیں۔
ضیاالحسن لنجار کا کہنا تھا کہ سائٹ ایریا میں جو واقعہ ہوا اس پر تحقیقات جاری ہیں، ابھی اس حوالے سے کچھ کہنا تحقیقات متاثر کرنے کے مترداف ہے، ادارے متحرک ہیں، کوئی واقعہ اگر ہو جاتا ہے تو ادارے فوری رسپانس دے رہے ہیں۔
انہوں کہا کہ تمام کالعدم تنظیموں کو وارننگ دے رہا ہوں کہ اپنی کارروائیاں بند کر دیں، پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے جو سازشیں ہو رہی ہیں، ان پر ہماری کڑی نظر ہے۔
بعد ازاں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے سینئر افسر راجا عمر خطاب نے کہا کہ جاوید سمیر کراچی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں فائنل ایٹر کا طالب علم ہے۔
انہوں نے تیسرے مفرور ملزم کی شناخت دانش کے نام سے کی جو بم بنانے کا ’ماہر‘ ہے جو دھماکے سے قبل تک کار کے اندر بمبار کے ساتھ بیٹھا رہا اور بم دھماکے سے قبل گاڑی سے اترا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کام مکمل ہو۔
انہوں نے بتایا کہ زیر حراست خاتون کو دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی سفر کرتے ہوئے اس وقت دیکھا گیا جب کہ وہ حب سے کراچی آرہی تھی، خاتون نے دو، تین شادیاں کیں اور وہ کافی عرصے تک بلوچ قوم پرست ذیلی گروپ سے وابستہ رہی۔