Site icon Daily Sangar

بلوچستان میں 14 افراد ماورائے عدالت قتل ، 44 جبراً لاپتہ کئے گئے،پانک کی ماہ اگست رپورٹ

بلوچ نیشنل موومنٹ کے انسانی حقوق کے ادارے ’ پانک ‘ نے اپنی ماہانہ رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔

رپورٹ کے مطابق ، اگست 2024 میں بلوچستان کے 11 اضلاع سمیت کراچی سےجبری گمشدگیوں کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں ضلع کیچ سرفہرست ہے جہاں سب سے زیادہ 15 جبری گمشدیاں ہوئیں جبکہ بلوچستان بھر سے 44 افراد کو پاکستانی فوج اور اس سے منسلک اداروں نے اغواء نما گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ رکھا ہے۔

پانک نے ماورائے عدالت کی تفصیلات فراہم کی ہیں جس کے مطابق ضلع خضدار میں پاکستانی فوج نے 5 زیرحراست لوگوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کردیا۔آواران میں ماسٹر عبدالخالق ، کولواہ کے علاقے ڈنڈار میں پانچ سالہ بچی ستارہ ان افراد میں شامل ہیں جنھیں براہ راست پاکستانی فوج نے قتل کیا۔

27 اگست کو ضلع پنجگور میں فرنیٹر کور (ایف سی) نے سجاد اور کامران نامی دو نوجوانوں کو کیمپ طلب کرکے انھیں ایسے حلف نامے پر دستخط کرنے کو کہا جس کے مطابق دونوں مسلح تنظیم سے وابستہ ہیں اور سرینڈر کر رہے ہیں، ان جعلی حلف ناموں پر دستخط کرنے سے انکار کے بعد جب دونوں نوجوان کیمپ سے واپس آ رہے تھے تو انھیں راستے میں ہی قتل کیا گیا۔

پانک نے پاکستانی سرحد کے باہر پاکستانی فوج کے خفیہ اداروں کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا، پانک کی رپورٹ کے مطابق 4 اگست 2024 کو بلوچستان کے ضلع آواران کے رہائشی ’ صابر بلوچ ولد دادشاہ ‘ کو سراوان ، مغربی بلوچستان ( ایرانی زیر انتظام) میں پاکستانی فوج کے ایجنٹس نے قتل کیا۔ ایک اور کارروائی میں 28 اگست 2024 کو بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل تمپ میں گومازی کے رہائشی ’ اختر بلوچ ولد محمد ‘ کو بھی مغربی بلوچستان کے علاقے دشتیاری میں قتل کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ، مغربی بلوچستان میں مسلسل ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے بلوچ مہاجرین قانونی ، آئینی اور سماجی تحفظ سے محروم ہیں جس سے ان بے وطن لوگوں کی زندگی بد سے بدترین ہوچکی ہے۔ اس مسئلے پر بارہا توجہ دلایا گیا ، لیکن عالمی ادارے اور متعلقہ حکام ان لوگوں کو انسانی بنیادوں پر مدد فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

پانک نے مطالبہ کیا ہے ، بلوچ مہاجرین کو افغانستان اور ایران میں باقاعدہ مہاجر کا درجہ دینے اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی نگرانی میں تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح افغانستان میں تنازعات کے دوران افغان مہاجرین کو ایران اور پاکستان میں مہاجر کے طور پر قبول کیا گیا اور ان تک انسانی بنیادوں پر امداد کی رسائی ممکن بنائی گئی ۔عین اسی طرح بلوچ مہاجرین کو بھی یہی درجہ دے کر ان کا حق دیا جائے اور پاکستانی فوج کا ایران اور افغانستان کی سرحدوں کے اندر ان کارروائیوں پر محاسبہ کیا جائے۔

مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جبری گمشدہ افراد بازیابی کے بعد میں غیر محفوظ ہیں، بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں ایک نوجوان ’عابد ولد وشدل ‘ کو پاکستانی فوج کی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ نے فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا۔ عابد بلوچ 21 مارچ 2023 کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے بعد بازیاب ہوئے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ جبری گمشدگان یا عدالت سے بری ہونے والوں کو دوبارہ جبری لاپتہ یا ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ ٹارگٹ کلنگ بھی بلوچستان میں پاکستانی فوج کا ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے وہ ان افراد کو جنھیں وہ کسی بھی وجہ سے ناپسند کرتی ہے ، قتل کرتی ہے۔

پانک تجویز پیش کرتا ہے کہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کی ذہنی و جسمانی صحت کی بحالی ، جان و مال کا تحفظ اور معاشرے میں دوبارہ عام شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے کو یقینی بنانا ضروری ہے ، اس حوالے سے انسانی حقوق کے ادارے کام کریں۔

Exit mobile version