Site icon Daily Sangar

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری کا دعویٰ

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے فوج نے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی تحقیقات کے بعد تحویل میں لیا ہے اور ان کے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

فوج کی جانب سے پیر کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹاپ سٹی کیس کی انکوائری کے بعد ’نتیجتاً پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف سخت تادیبی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔‘

آئیے جانتے ہیں کہ ٹاپ سٹی کیس کیا ہے۔

اسلام آباد میں واقع ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کنور معیز احمد خان نے نومبر 2023 میں پاکستان کی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں فیض حمید پر اختیارات کے غلط استعمال کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

معیز احمد خان کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ مقدمے کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معیز احمد خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور اس دوران ان کے گھر سے سونا، ہیرے، اور نقدی سمیت متعدد قیمتی اشیا قبضے میں لی گئی تھیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور بریت کے بعد جنرل (ر) فیض حمید نے معیز خان کے ایک رشتہ دار کے ذریعے ان سے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے بھی رابطہ کیا۔

درخواست گزار کا دعویٰ تھا کہ ملاقات کے دوران جنرل (ر) فیض حمید نے چھاپے کے دوران چھینا گیا 400 تولہ سونا اور نقدی کے سوا چیزیں واپس کرنے کی پیشکش کی تھی۔

کنور معیز نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر (ر) نعیم فخر اور بریگیڈیئر (ر) غفار نے انھیں چار کروڑ روپے نقد ادا کرنے اور نجی چینل ’آپ ٹی وی‘ کو سپانسر کرنے پر بھی مجبور کیا۔

اس درخواست پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین پر متشمل بینچ نے کی تھی۔ اسی بینچ نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف تحقیقات کا حکم بھی دیا تھا، جس کے بعد پاکستانی فوج نے اپریل 2024 میں تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی۔

ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک معیز احمد خان کی درخواست پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے سماعت کی تھی اور نو نومبر کو درخواست گزار کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور ان کے معاونین کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے یہ بھی نشان دہی کی تھی کہ درخواست گزار بدنیتی پر مبنی مقدمہ چلانے پر جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر ریٹائرڈ افسران کے خلاف سول یا فوجداری عدالت میں کیس دائر کر سکتا ہے۔

پاکستانی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کے تحقیقات کے بعد مناسب تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ فیض حمید کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے بھی متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

فوج کا کہنا ہے کہ فیض حمید کے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

فوج میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا طریقہ کار تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں اس افسر کے رینک کی مناسبت سے ایک مجاز اتھارٹی سزا کا فیصلہ کرتی ہے۔

اس عمل میں سب سے پہلے کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر کے خلاف کورٹ آف انکوائری ہوتی ہے۔ دوسرے حصے میں ’سمری آف ایویڈنس‘ ریکارڈ کی جاتی ہے اور اگر ثبوت اور شواہد موجود ہوں اور جرم ثابت ہو رہا ہو تو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔

یہ جرم کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے کہ افسر کو کیا سزا دی جائے گی اور سزاؤں میں رینک واپس لینا، سہولیات وغیرہ کی واپسی کے علاوہ قید بامشقت اور موت کی سزا تک شامل ہیں۔

Exit mobile version