Site icon Daily Sangar

بلوچستان کے 3000 اسکولوں کے بند ہونیکا انکشاف

محکمہ تعلیم حکومت بلوچستان کی خالی آسامیوں پر ایس بی کے امیدواروں نے تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ تعلیم کی طرف سے تقریباً 3000 بند اسکولوں اور خالی آسامیوں پر تعیناتی کے لیے کم و بیش 8500 اساتذہ کی بھرتی کا اشتہار دیا گیا جس کے تحت سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کو ٹیسٹ منعقد کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، جس میں فیس 980 روپے فی کیڈر رکھی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان بھر سے تین لاکھ سے زائد امیدواروں نے درخواستیں جمع کرکے ٹیسٹ دیئے۔ اس کے بعد ایس بی کے انتظامیہ نے جوابات اپلوڈ کیں، جس کے ذریعے تمام امیدواروں کو اپنے رزلٹس کا بھی علم ہو گیا چونکہ ٹیسٹ بہت مشکل تھا اس لیے بہت کم بلکہ سخت محنت کرنے والے امید وار ہی پاس ہو سکے۔

انہوں نے کہا جب رزلٹ کی تیاری حتمی مراحل میں تھا کہ ایک شخص جس کا تعلیم سے بلواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں، نے بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک کیس دائر کر کے لاکھوں امیدواروں کی محنت پر پانی پھیر دیا اور تقریباً سات مہینے تک کیس کورٹ میں چلتا رہا مگر ہائی کورٹ نے کسی قسم کی کرپشن کا ثبوت نہ ملنے کے باوجود پاس امیدواروں کے خلاف فیصلہ دیا جو مکمل نا انصافی پر مبنی تھا۔ نیب کو بھی تحقیقات کے لیے 45 دن دیئے گئے تھے اور نیب کو بھی کوئی بد عنوانی کا ثبوت نہیں ملا تھا۔

بلوچستان ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو پاس امیدواروں، ایس بی کے اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بلوچستان نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ نے 24 اپریل 2024 کو بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر امیدواروں کے حق میں فیصلہ دیا، ایس بی کے اور محکمہ تعلیم کو میرٹ کی بنیاد پر تعیناتی کا حکم جاری کیا۔ ایس بی کے نے 16 مئی کو رزلٹ کو اپلوڈ کرنے کا اعلان کیا مگر وزیر تعلیم اور وزیر اعلی بلوچستان کے حکم پر ایس بی کے نے رزلٹ کا اعلان نہ کر کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی پامالی کی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تقریباً 3000 کے قریب اسکولز بند ہیں اور کئی اسکولوں کو اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔ بلوچستان ہر لحاظ سے پسماندگی کا شکار ہے بالخصوص تعلیمی حوالے سے بہت پیچھے ہے۔ تین، چار سالوں کے بعد اساتذہ کی تعیناتی ہو رہی ہے مگر تعلیم دشمن عناصر رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں جو کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔

انہوں نے کہا ہم معزز عدالت عالیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ وزیر اعلی بلوچستان، ایس بی کے یونیورسٹی اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو کٹہرے میں کھڑا کریں کہ محض افواہوں پر پاس امیدواروں کے حقوق پر کیوں ڈاکہ ڈال رہے ہیں اگر سپریم کورٹ کے آرڈرز کے مطابق رزلٹ کا جلد اعلان نہ کیا گیا تو پھر سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے اور عدالت کے فیصلے کی پامالی کا کیس دائر کریں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم آئین کے تحت احتجاج کا بھی حق محفوظ رکھتے ہیں اور ہم کسی بھی حد تک جائیں گے اور پورے بلوچستان میں احتجاجی تحریک کا آغاز کریں گے اور اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔ ہم گورنر ہاؤس، بلوچستان اسمبلی کے سامنے دھر نا دیں گے۔

Exit mobile version