Site icon Daily Sangar

شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ -تحریر: محمد یوسف بلوچ – قسط6

شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ
قائد انقلاب شہید غلام محمد بلوچ کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ
(…..ایک قسط وار سلسلہ…..) قسط۔6
تحریر: محمد یوسف بلوچ پیش کردہ : زرمبش پبلی کیشن

”سوانح حیات قائدِ انقلاب شہید چیئر مین غلام محمد بلوچ “بلوچستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما شہید چیئر مین غلام محمد بلوچکی سوانح عمری، جدجہد،فکرو نظریات اورسیاسی بصیرت پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے ان کے بھائی محمد یوسف بلوچ نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب بلوچ جدو جہد آزادی کے کاروان میں شامل افراد کیلئے معلومات و دلسچپی کا ایک بہتر ذریعہ ہے ۔ ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کی سیاسی بصیرت، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں۔ یہ کتاب ہم ”زرمبش پبلی کیشن“کی شکریہ کے سا تھ شاع کر رہے ہیں۔(ادارہ سنگر)

(چھٹی قسط)

بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کا پہلا کونسل سیشن پارٹی نام کے ساتھ سوچ، نظریہ اور فکر میں بدلاؤ:۔
شہید فدا احمدبلوچ کی شہادت کے بعد جب ڈاکٹر مالک اور اس کے ہمنواؤں نے پاکستانی پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت بھی آپ نے ان کے اس عمل کی نہ صرف مذمت کی بلکہ آپ نے ان کے اس عمل کے خلاف کھل کر بات بھی کی۔ اس دوران یہ مفاد پرست آپ کو اور دیگر دوستوں کو مطمئن کرنے کے لیے یہ کہتے رہے کہ ہم پاکستانی پارلیمنٹ میں جائیں بھی تو ہمارا نظریہ جو کہ بلوچ حقِ خودرادیت کا ہے وہ بدل نہیں سکتا اور ہم پارلیمنٹ میں ہوتے ہوئے بھی بلوچ حق، علیحدگی اور حقِ خووداردیت کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ڈاکٹر مالک اور حئی کا ہمیشہ یہ کہنا تھا کہ ہم اس پارلیمنٹ کو قومی مفادات کے لیے استعمال کرینگے۔اسی کی توسط سے اگر یہاں ہماری آواز کی شنوائی نہیں ہوئی تو ہم بیرونی دنیا اور عالمی اداروں سے رجوع کرسکتے ہیں۔اور اگر اس کے باوجود بھی ہماری آواز سنی نہیں گئی تو ہم ان ایوانوں کو چھوڑ کر اپنے سابقہ طریقہ کارکے مطابق جدوجہد کرینگے۔ لیکن آپ یہ جانتے تھے کہ ان ایوانوں میں جانے کے بعد یہ گروہ بلوچ قومی مفادات کے بجائے غاصب کے قبضہ کو طول دینگے۔اسی لیے آپ کا ہمیشہ ان سے اختلاف رہااور آپ یہ بلوچی محاورہ انہیں سناتے تھے کہ” یک بھرے ُنکء شیرکینے روت پدا واتر بی یگ دوروگے”۔ اس مٹھاس کو ایک بار آپ لوگ چھک گئے تو زندگی بھرآپکے خون میں اس طرح شامل ہوگا کہ اس کے اثر سے منہ بھی کالا ہوجائے گا اور پھرآپ لوگ قومی مفادات، بلوچیت،بلوچ سرزمین کے ساتھ ساتھ انسانیت بھی بھول جائینگے۔
آپ شہید ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ہم غلام ہیں اور اگر غلام قوم کو مراعات کی لت لگ گئی تو پھر مقصد پہ ذات کو ترجیح دی جائیگی جس سے کردار تو سیاہ دھبہ بن جائے گا لیکن اس سے ہم قوم کو ایک ایسے بھنور میں چھوڑجائینگے جس سے اس قوم کو شاید ہی کوئی معجزہ نجات دلا سکے۔ مگر حئی، مالک اینڈ کمپنی پارلیمنٹ اور پارلیمانی سیاست کیلئے اس قدر جنونیت میں چلے گئے تھے کہ آپ شہید چیئر مین کی منطقی باتیں بھی بے اثر ثابت ہوئے۔اوروہ اپنے دیرینہ پارلیمانی خوابوں کی تعبیرکیلئے بلوچ،بلوچیت اور نظریہ فدا جان کو سولی پہ چڑھا کے میر جعفرمیر صادق بن گئے۔
اسی دوران سال1989ء میں بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے پہلے مرکزی کونسل سیشن کا انعقادشہید نواب نوروز خان سٹیڈیم کوئٹہ میں منعقد ہوا۔
ہماری بدبختی کہ بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے پہلے کونسل سیشن کا مہمان خاص پختونخوا میپ کے رہنماء رحیم مند خیل تھے۔ جواس امر کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ہے کہ شہید فدا بلوچ کے خون کی قیمت مالک اور حئی وصول کرچکے تھے۔
شہید غلام محمد بلوچ نے سٹیج پہ آکے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس انداز سے کیا کہ” آج مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میں شہید فدا احمدبلوچ کی تشکیل کردہ پارٹی کے اس مقدس پروگرام کے سیج پر ایک ایسے شخص کو دیکھ رہا ہوں جو بذاتِ خود بلوچ اور بلوچ وطن کو تقسیم کرنے کے در پہ ہے۔اگر ہم ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے رہنماء قومی سوال سے بھی انحراف کرینگے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ شہید فدا احمد بلوچ نے اس پارٹی کی ضرورت کیوں محسوس کی اور اس کے مقاصد کیا تھے لیکن آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پارٹی کے رہنماء بھی شہید فدا احمد بلوچ کے فلسفے کو بھول چکے ہیں۔”آپ نے دورانِ تقریر واشگاف الفاظ میں رحیم مندوخیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”مندوخیل اچھی طرح سن لو ہم اپنی گل زمین کا دفاع کرنا اچھی طرح جانتے ہیں اور اس کے لیے ہم اپنے لہو کا آخری قطرہ تک بہادینگے لیکن اس گلزمیں پہ کبھی آنچ نہیں آنے دینگے اور اگر جس نے بھی اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل چاہا تو ہم اس کے عزائم خاک میں ملانے کے لیے آخری حد تک جائینگے۔ مجھے صد افسوس کہ آج اس جلسے کی قیادت ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو بلوچ دشمنی میں ریاستی آلہ کار ہے اور ہم اپنے ہی لوگوں کو ناراض کرچکے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس جلسے کی رہنمائی اتحادی پارٹی کا سربراہ کرتا لیکن آپ حضرات نے تو اس ہستی کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد دھتکار دیا ہے۔اگر آج اس جلسے کی قیادت نواب اکبرخان کے ہاتھ ہوتا تو مجھ سمیت یہاں تشریف فرما ہر بلوچ کو دلی خوشی ہوتی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس عمل سے آج بلوچ ارمانوں کا خون کردیا گیا۔”
بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے اس جلسے میں شہیدنواب اکبر خان بگٹی کودعوت نہ دینا بھی اس جانب دلیل کرتا ہے کہ مالک اور حئی نے ریاست سے اپنے ضمیر کا سودا کرکے بلوچ قوم کی قیمت وصول کرچکے ہیں۔اور دوسری بات اس جلسے میں شہید فدا احمد بلوچ کی پارٹی کا نام بھی تبدیل کردیا گیا جہاں بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ، بلوچستان نیشنل موومنٹ بن گیا۔
تاریخ نیا رخ اختیار کرچکا تھا جہاں قوم پرستی کے یہ نام نہاد دعویدار شہید فدا کے فکر کو سرے عام نیلام کرکے ریاستی فکر کو آگے لے کے جارہے تھے اور یہ (مالک اور حئی) اپنے اس عمل سے قوم کو ایک بڑے عرصے تک دھوکہ اور فریب دینے میں کامیاب بھی رہے۔
آپ(شہید چیئر مین غلام محمد) کی اس تقریر کے پُرجوش اور حقیقت پہ مبنی کلمات حئی، مالک اور اس کے ہمنواؤں کوکانٹے کی طرح چبھنے لگے۔کیونکہ آپ نے جس انداز میں جلسہ عام سے خطاب کیا تھا اس سے ہر انسان جو اس مجمع میں موجود تھا وہ یہ جان چکے تھے اور انہیں پختہ یقین ہوگیا کہ آپ کا نظریہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کوئی آپ کو آپ کے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹایاجا سکتا ہے۔اس پروگرام میں جب ڈاکٹر حئی سٹیج پہ آئے تو اس نے شہید غلام محمد بلوچ کی تقریر کے برعکس مندوخیل کی کھل کر حمایت کی اور کہا کہ مندخیل ہمارا دیرینہ ساتھی ہے اس کا ان لوگوں سے کوئی تعلق ہی نہیں جو بلوچستان کی تقسیم چاہتے ہیں اور نہ کبھی مندخیل نے بولان تا چترال کا نعرہ بلند کیا ہے۔ڈاکٹر حئی کے اس جھوٹ سے سامعین بھی دھنگ رہ گئے کیونکہ اس حقیقت سے کوئی انکار ہی نہیں کرسکتا کہ پختونخواہ میپ کا یہ منشور اور پالیسی کا حصہ ہی تھا تو آیا مندخیل کیسے اپنی پارٹی کے منشور کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکتا ہے اور وہ اس نعرے کو کیسے بلند نہیں کرتا جو اس کی پارٹی کا سب سے اہم اور بنیادی نعرہ ہو۔
اس پروگرام کے بعد ڈاکٹر حئی اور مالک نے آپ کو قائل کرنے بڑی کوششیں کیں لیکن سب بے سود نکلا کیونکہ مالک اور حئی تو بلوچ قوم کا سودا لگا چکے تھے۔جسے وقت نے ثابت بھی کیا۔ آپ کی ایک ہی بات تھی کہ اگر بلوچستان اور بلوچ قوم کے حقوق کی جدوجہد کرنی ہے تو قابض کے اداروں میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے قابض کے قبضہ گیریت کے عمل کو ہی تقویت ملے گی۔
شہید غلام محمد بلوچ اس بات سے بے خبر تھا کہ ان مفادپرستوں نے چونکہ ریاست سے قوم اور وطن کی قیمت وصول کرچکے تھے تو کیسے راہ راست پہ آسکتے۔ پر آپ شہید غلامحمدبلوچ نے ہمت نہیں ہاری اوراس امید پہ ان کے ساتھ رہا کہ ہوسکتا ہے کہ وقت آنے پہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو۔ اگر اس وقت شہید غلام محمد بلوچ ساری حقیقت سے آشناء ہوتا تو یقیناً آج حالات اس سے یکسر مختلف ہوتھے کیونکہ اگر شہید کو ان کی حقیقت کا علم ہوتا تو وہ دورِ طالب علمی کے بعد شہید فدا کی طرح ہی الگ جماعت تشکیل دیتا۔جیسے ان مفاد پرستوں کا اصل چہرہ دیکھنے بعد شہید نے کردکھایا۔ بلوچستان نیشنل موومنٹ کوپارلیمانی سیاست میں پہلا دھچکہ:۔
پاکستانی پارلیمنٹ میں جانے کے نو(9) ماہ بعد ڈاکٹر حئی اور مالک کو اس وقت ریاستی یوانوں کو خیر باد کہنا پڑا جب دوسری جانب سردار مینگل نے انہیں شہید اکبر خان حکومت سے الگ ہونے کو کہا۔ اس وقت سردار اختر مینگل بلوچستان نیشنل موومنت کے نائب صدر کے عہدے پہ فائز تھا اور وہ خود اس وقت پارلیمنٹ کا ممبرتھا جبکہ اسے کوئی وزارت نہیں ملی تھی۔لیکن اکبر خان کے ساتھ ذاتی ضد و انا نے انہیں اپنی جماعت کے لوگوں کو بھی شہید اکبر خان کی حکومت سے دستبرداری کا فرمان جاری کیا۔ مالک اور حئی سردار کا حکم ٹال نہ سکے اورشہید اکبر خان کی گورنمنٹ سے مجبوراً علیحدگی اختیارکرکے اپنے وزارتی مراعات اورآرام دہ کرسیوں کی بھلی چڑھادی۔
ڈاکٹر حئی اورمالک کمپنی جب ریاستی پارلیمنٹ کا حصہ تھے تو انہوں نے اس د وران ”مند ُملاچات“میں فوجی آپریشن کرایا جس سے تین بلوچ فرزند شہید،اور دوران آپریشن بمباری سے کئی گھر اور مال مویشی تباہ ہوئے۔آپ شہید غلام محمد بلوچ نے اس ریاستی عمل کا سختی سے نہ صرف مذمت کی بلکہ مالک اور حئی کو ملامت بھی کیا اور انہیں یہاں تک کہہ دیا کہ اس ریاستی عمل میں تم لوگ برابر کے شریک ہو۔جس کی وجہ سے اس پارلیمانی گروہ سے آپ کے اختلاف مزید بڑھ گئے۔
آج جب میں نیشنل پارٹی کے بلوچ کُش پالیسیوں کو دیکھتا ہوں تو یہ یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ ماالک اور حئی نے ہر دور میں اس ریاستی عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ان سازشی عناصر کو اپنے ذاتی مفادات سے زیادہ کوئی شۂ عزیز نہیں۔ان کا مقصد ہی فقط مراعات حاصل کرنا ہے چاہے اس کے لیے انہیں کسی حد تک بھی جانا پڑے۔89ء میں ملا چات مند آپریشن بھی آج ہی کے بلوچ کُش پالیسیوں کا حصہ تھا اس وقت بھی یہ عناصر اپنے اسی پروگرام پہ گامزن تھے اور آج بھی۔

مفاد پرستوں کو راہِ راست پہ لانے کی ایک اور کوشش:۔
آپ(شہیدغلام محمد بلوچ) حئی اورمالک سے اختلافات کے باوجودساتھ رہا۔ جب انہوں نے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تو آپ نے انہیں پھر سے قومی مفادات اور فکر ِ فدا کی جانب گامزن ہونے کو کہا۔ ان کے پارلیمنٹ سے علیحدگی سے ایک بار پھر قوم میں ان کا کسی حد تک اعتماد بحال ہوچکا تھا لہذا ان حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آپ نے انتھک کوشش کی کہ وہ ریاستی سوچ کے مرتکب نہ بنے۔اور آپ نے انہیں کہا کہ یہ ایک سنہری موقع ہے جو آپ لوگوں کے ہاتھ آیا ہے لہذا اب بھی وقت ہے کہ اس نظریے کو جس کا ہمیں شہید فدا بلوچ درس دیا کرتا تھا اسے واپس زندہ کیا جائے اور بلوچ کے ہر کوچہ و گدان تک اس نظریے اور آزادی کے پیغام کو پہنچایا جائے،وہاں موجود ہر بلوچ کو یہ یقین دلایا جائے کہ ہمیں اس وقت تک نجات نہیں مل سکتی جب تک کہ ہم دوسروں کے غلام ہیں،اب بھی موقع ہے کہ ہم شہید فدا کے فلسفے کو ہر بلوچ کی سوچ کا حصہ بنائیں۔نہیں تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی۔اور یہی پروگرام ہے جس کے ذریعے بلوچ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرئینگے اور یہی حالات کا تقاضا بھی ہے اور بلوچ قوم کو منظم کرنے کا بہترین ذریعہ بھی۔
مگرانہوں نے آپ(شہید چیئرمین) کے تجاویز پہ اپنے ذاتی مفادت کو ترجیح دی اور پاکستانی پارلیمانی سیاست کو رد کرنے پر کسی صورت راضی نہیں ہوئے ان کی یہ سوچ اور حالت دیکھ کر آپ نے آنے والے روشن مستقبل کے لیے اپنی توجہ کا مرکز بلوچ نوجوانوں کو بنا دیا۔تا کہ آنے والے دنوں میں حقوق کو حاصل کرنے کے لیے آج کا نوجوان ذہنی اور جسمانی طور پہ مکمل تیارہوجائے۔
شہید فدا بلوچ کی قربت نے آپ کے ذہن سے مایوسی کے لفظ کو ہی نکال پھینکا تھا۔لہذا مالک اور حئی سے شدید اختلافات کے باوجود آپ (شہید چیئرمین غلام محمدبلوچ) اپنے نظریاتی پروگرام، فلسفے اور سیاسی وژن کو جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔۔آپ شہید غلام محمد بلوچ شہید کامریڈ فدا جان بلوچ کے نقش قدم پر چل کر اپنی زندگی نظریہ فداجان،بلوچ قومی مفادات اور گلزمیں کی بقاء کے لیے وقف کر رکھا تھا اوروقت نے ثابت کیا کہ غلام محمد بلوچ اپنے نظریے اور فکر سے ہٹنے والا نہیں اور نہ ہی دنیا کی کوئی طاقت اسے اس نظریے اور فکر سے دور کرسکتا ہے۔یہ آپ کا وہ عہد تھا جو آپ نے بچپن میں کیا تھا کہ میرا جینا، مرنا فقط قوم کے لیے ہے۔آپ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ” گلزمین اور قوم سے دغا کرنے والے اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے۔کیونکہ مجھے اپنے قوم پہ پورا بھروسہ ہے کہ وہ زیادہ دیر اغیار کی غلامی برداشت نہیں کرینگے اور اس غلامی سے نجات حاصل کرنے وہ ایک دن ضرور میدانِ عمل کا رخ کرینگے میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جو نظریاتی اور قوم دوست بلوچوں کے لیے خوشی کا پیغام لانے کا سبب بنے گا، تو دوسری جانب یہی وہ دن ہوگا جب قوم کے سودا گر اپنا اصل چہرہ قوم کے سامنے لانے سے بھی دریغ نہیں کرینگے اور یہی سے ان کایومِ حساب شروع ہوگا”
وقت نے یہ ثابت کردیا کہ واقعی بلوچ جہدِ آزادی نے جہاں ایک جانب قوم میں زندگی کی نئی روح پھونک دی تو دوسری جانب قوم کے یہی سودا گر آج علی اعلان یہ کنے سے دریغ نہیں کرتے کہ بلوچ جہد کار ہی دراصل قوم کے دشمن ہیں۔یہ ہر دور میں ہوتا رہا ہے یہ شاید دنیا کا دستور ہے،جیسے بھگت سنگھ کو اس کے بعض ہم وطن اس دور میں باغی، اور غدار کے القابات سے نوازتے تھے لیکن وقت نے یہ ثابت کردیا کہ بھگت ہی ہندوستان کے اصل وطن دوست رہنماؤں میں سے تھا۔ آج یہ مفاد پرست بھی اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے قوم کے عظیم سپوتوں کو موردِ الزام ٹہراتے ہیں۔لیکن آج تک کے حالات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وطن کے اصل رکھوالے کون ہیں اور قوم اور وطن کے سودا گر کون۔
پارلیمنٹ کے یہ پجاری مراعات اور ایوانوں کے نشے میں بلوچ قوم کو گمراہ کرنے کے لیے ایک جانب شہیدوں کی برسی بڑے جوش و خروش سے مناتے تھے جنہوں نے ہمیشہ بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کی، وہ چاہے شہدائے15 جولائی ہوں، چاہے شہید حمید جان کی برسی یا شہید لونگ جان و شہید مجید اول کی شہادت کا دن اور دوسری جانب انہی شہیدوں کے فکر اور نظریے کو پامال کررہے تھے۔
آپ (شہید غلام محمدبلوچ) کی تما م ترکوششوں کے باوجود یہ عناصر راہِ راست پہ نہیں آئیں بلکہ انہوں نے بلوچ قوم اور خاص کر نوجوان طبقے کو مراعاتی سیاست کی بھٹی میں جھونک دینے کا مکمل عزم کررکھا تھا۔ اس کے اثرات آپ بخوبی اپنے کارکنوں اور عام بلوچوں میں محسوس کرنے لگے تھے۔جس کی وجہ سے آپ اکثر اس صورتحال کے بارے میں کہتے کہ اگر ہم محنت، ایمانداری، فکری اور نظریاتی بنیادوں پر کام نہیں کرینگے تو ممکن ہے کہ آنے والے وقتوں میں بلوچ قوم اپنی بقاء کے لیے وہ اقدامات نہ کرسکیں جس کی میں امید کرتا ہوں یا جس کا خواب شہید فدا بلوچ نے دیکھا تھا۔
ان حالات میں آپ کوکام میں مگن دیکھ کر مجھے ایسا لگتا تھا کہ آپ نے واقعی خود کو قوم اور وطن کے لیے وقف کر رکھا ہے جہاں آپ کی سوچ قوم اور وطن، آپ کی باتیں فقط قوم اور وطن مجھے یقین ہے کہ اس حالت میں آپ کے خواب بھی اسی مناسبت سے ہونگے۔اور دوسری جانب آپ کے اس کام میں انتشار پیدا کرنے اور قوم کو ابہام کا شکار بنانے کے لیے پاکستان پرست گروہ کافی چوکس تھا جہاں وہ ایسا کوئی موقع جس میں قوم کو گمراہ کیا جاسکے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔لیکن وقت نے قوم کو گمراہ کرنے والوں کے اصل چہرے اور عزائم فاش کردیے اور آپ اپنے کردار اور عمل سے ایک عظیم مرتبے کا مالک بن گئے۔

افغان سفیر سے ملاقات:۔
آپ (شہید چیئرمین) کی سیاسی بصیرت،سیاسی اپروچ، نظریہ اور قوم و مقصد سے فکری وابستگی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ جس کی وجہ سے آپ نے بڑی حد تک قوم کا اعتماد حاصل کرلیا تھا۔انہی خصوصیات اور قوم میں آپ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے افغان سفیر نے آپ کو اپنے ہاں دعوت پہ بلایا۔ بقول آپ کے ”جب میں تنظیم کاسیکرٹری جنرل تھا تو افغان سفیر کا دعوت نامہ مجھے کو ملا۔ جب میں افغاں سفارت خانہ کوئٹہ پہنچا تو افغان سفیر کے ساتھ کافی دیر تک مختلف سیاسی موضوعات پہ گفتگو ہوتی رہی اس دوران افغان سفیر مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا” کہ” مسٹر غلام محمد آپ کی تنظیم چونکہ بلوچستان میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے اس لیے آپ لوگ کوئٹہ شہر اور بلوچستاں کے تمام علاقوں میں عوامی نیشنل پارٹی کے احتجاج کی حمایت کے ساتھ ساتھ ان کے اس احتجاج میں عملی طور پہ شامل بھی ہوجائیں۔”یہ ان دنوں کی بات ہے جب سائنس کالج کوئٹہ کے سامنے پرنس روڈ پہ عسکری اداروں نے فائرنگ کرکے پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے شاید 3یا 4 کارکنوں کو شہید کیا تھا جہاں آج تک اس چوک کا نا م” شہیدانو” چوک ہے”۔اس حوالے سے شہید نے ایک میٹنگ میں افغان سفیر سے ہونے والی بات چیت کو اس انداز میں بیان کیا کہ ”میں نے افغان سفیر کو یہ سوچ کراپنا فیصلہ سنایا کہ ہمارا چونکہ اس احتجاج سے کوئی تعلق نہیں تھا حالانکہ بعدمیں ہونے والے واقعات میں جیسے ان کے زخمی کارکنوں اور شہیدوں کو سنبھالنا وغیرہ پہ ہمارے کارکنوں نے ان کی مدد بھی کی۔ لیکن چونکہ ہمارا اس عمل سے تعلق ہی نہیں تھا لہذا میں نے کہا کہ یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا کہ اپنے کارکنوں کی جان کسی ایسے مقصد کے لیے خطرے میں ڈالا جائے جس سے بلوچ قومی مفادات کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔”۔تو افغاں سفیر کہنے لگا کہ” آپ کی تنظیم کو عوامی نیشنل پارٹیکی حمایت کرنی چاہے۔ کیونکہ افغانستاں میں بیٹھے ہوئے بلوچ طلباء تنظیم کے ہمارے کچھ دوست رہنماء رازوق بگٹی اور حبیب جالب نے اس پروگرام کی حمایت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہاں آپ کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ آپ بلوچستان میں آپ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو اے عوامی نیشنل پارٹی کے احتجاج میں شامل کریں۔”لیکن آپ نے یہ کہہ کر اس موضوع پہ چھاپ لگا دی کہ ” رازق اور جالب کا اول تو بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے کوئی تعلق ہی نہیں اور اگر ہوتا بھی تو میں اور میری تنظیم کسی اور کے پابند نہیں اور جس تنظیم کا میں سیکرٹری جنرل ہو ں وہ فقط اداروں کے فیصلوں پہ یقین رکھتی ہے اور وہ فیصلے بھی اگر بلوچ قومی مفادات کے زمرے میں آتے ہوں۔ہمارا اپنا نظریہ ہے اور ہم فقط اپنے اسی نظریے کے تحت جدوجہد کرینگے لہذا میں اس حوالے سے آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔
بحیثیت چیئرمین:۔
پارٹی لیڈر شپ سے نظریاتی اختلافات کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔ایک جانب آپ ان اختلافات کی تخصیص کے لیے کوششیں کرتے رہے اور دوسری جانب آپ کی زیادہ تر توجہ کا مرکز تنظیم کے کارکنان کی تربیت تھی جہاں آپ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تنظیم کے کارکنان آپ کے کردار سے اس قدر متاثر تھے کہ پارٹی لیڈر شپ سے شدید اختلافات کے باوجود تنظیم کے کارکنان نے1990ء کے کونسل سیشن میں آپ کو پارٹی کا چیئرمین منتخب کیا۔
اس نازک دور میں جہاں نام نہاد بلوچ قوم پرستوں نے سیاست کو کاروبار بنارکھاتھا، جہاں وہ ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو اس کاروبار کا حصہ بنانے کی تگ و دو کر رہے تھے۔ لیکن آپ نے ہمیشہ ان کے اس نظریے سے اختلاف رکھتے ہوئے سیاست کو عبادت سمجھ کر اپنا فرض نبھاتے رہے۔
تاریخ ایسے حوالوں سے بھری پڑی ہے جہاں ہوش سنبھالتے ہی جو سیاست کو اپنا نصب العین تصور کریں تو ایسی ہستیوں کو دنیا کی کوئی طاقت فکری اور نظریاتی سیاست سے دور نہیں کرسکتا۔ آپ شہید غلام محمد بلوچ بھی انہی عظیم ہستیوں میں سے تھے جونظریے اور فکر پہ کبھی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ ہر دور میں اپنے نظریے اور فکر کے پرچار کو ہی اپنا مقصد بنایا۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی کونسل سیشن سے قبل ہی بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ شہید فدا احمد بلوچ کی شہادت کے بعد مفاد پرست عناصر جو ریاستی پارلیمنٹ کے پیروکار تھے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرتے رہے جو ان کے حکم کے پابند ہوں۔ لہذا ان حالات میں تنظیم میں ایسے افراد کی بھی بہتات تھی جو پارلیمانی سیاست میں ہی بلوچ قوم کی بقاء تلاش کررہے تھے۔لیکن آپ کی انتھک محنت اور جدوجہد کی بدولت بڑی تعداد میں کارکنان اس بات پہ قائل ہوچکے تھے کہ بلوچ کی بقاء ریاستی اداروں میں نہیں بلکہ ریاست کے خلاف جدوجہد کرنے میں ہے۔کونسل سیشن سے پہلے آپ نے دوستوں کا اعتماد حاصل کرلیا تھا اس لیے آپ شہید فدا کے نظریے کے پیروکار ہوتے ہوئے بھی آپ تنظیم کا چیئرمین منتخب ہوئے۔ حالانکہ ڈاکٹر اور اس کے حواری یہ کبھی برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ ان کی مفادپرستانہ سوچ کا مخالف فرد تنظیم کا سربراہ منتخب ہو۔
بلوچ سٹوڈنٹس ارگنائزیشنکے دسویں کونسل سیشن میں جب آپ چیئرمین یعنی تنظیم کے سب سے کلیدی عہدے پہ براجماں ہوئے تو آپ کو ایک سنہری موقع ہاتھ آیا تھا کہ بلوچ قوم کو ایک بار پھر شہید فدا احمد بلوچ کے دیے ہوئے نظریے کی جانب مائل کیا جائے تاکہ وہ آنے والے دنوں میں ریاستی کھیل کا حصہ نہ بنے۔لہذا آپ نے اس ضمن میں مضبوط اور مستحکم بنیادوں پہ اداروں کو تشکیل دینے کاعمل شروع کیا۔ان اداروں کی توسط سے بلوچستان، کراچی،اندرونِ سندھ اور ڈیرہ جات تک کے بلوچوں کو ایک پلیٹ فارم پہ لانے کے لیے عملی اقدامات شروع کیے۔جس کی وجہ سے اس دور میں بلوچستان کے علاوہ ان علاقوں میں بھی بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ایک منفرد مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔
ان حالات کو دیکھ کر جہاں آپ نے تمام بلوچ علاقوں تک رسائی حاصل کرلی تھی تو مفاد پرستوں نے اپنے آلہ کاروں کی بدولت اندرونی طور پہ آپ کے خلاف سازششیں بھی کیں اور تنظیم کے اداروں میں موجود بعض کارکنان کو خرید نے کی کوششیں بھی کیں جہاں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوچکے تھے۔آ پ ان کے اس کھیل کا بخوبی مشاہدہ کررہے تھے لیکن وقت و حالات ایسے نہیں تھے کہ آپ بلوچ قوم کے سامنے کھل کر ان کی مخالفت کریں حالانکہ اپنے اداروں میں ان کے اس عمل کی آپ کھل کر مخاالفت کرتے تھے۔ لیکن حالات کا مقابلہ کرنا آپ کا وطیرہ تھا لہذا آپ ان کے اس عمل کو خاطر میں لائے بغیر تنظیم کے پروگرام کو لے کے آگے بڑھتے گئے۔

بلوچستان نیشنل موومنٹ کی تقسیم اور بلوچ سٹوڈنٹس آگنائزیشن بحرانی کیفیت کا شکار:۔
1990 ء میں جس وقت وحید بلوچ چیئرمین اور آپ(شہیدغلام محمد بلوچ) بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل تھے تو تنظیم شدید بحران کا شکار ہوا جس کی وجہ سے اندرونی طور پہ اسی سال تنظیم دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ تنظیم کے اس بحران اور ازبعد تقسیم کے ذمہ دار نام نہاد بلوچ قوم پرست ڈاکٹر حئی، مالک اور اختر مینگل تھے جہاں ان کو پارلیمنٹ کی لت لگ گئی تھی اور قابض کے ایوانوں میں جانے کے لیے ہر ایک کی یہ کوشش تھی کہ پارٹیکے کُلی اختیار ات کا مالک وہ خود بنے۔اختیارات کا یہ جنگ بالآخر بلوچ قوم کے ساتھ ساتھ بلوچ طلباء تنظیم کو بھی دولخت کردیا۔
حئی اور مینگل نے اپنے اس عمل سے نہ صرف قوم کو تقسیم کیا بلکہ انہوں نے آنے والی نسلوں کو بھی ایک ایسی سوچ سے نوازا جہاں پارٹی کے ساتھ ساتھ طلباء تنظیمیں بھی ان کی میراث بن گئے تھے جس کے اثرات ہم آج تک دیکھ رہے ہیں اور آج اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ انہوں نے یہ سب یقیناً ریاستی ایماء پہ ہی کیا ہوگا کیونکہ قوم کوتقسیم کرنے کی یہ سوچ تو ریاست کی ہے،یہی سوچ انگریزوں کی تھی جہاں انہوں نے 108 سال تک بلوچستان پہ حکمرانی کی۔یہاں بھی ان حضرات کی اس تقسیم سے بلوچ انتشار کا شکار ہوا۔جس سے پاکستان کو اپنے مفادات حل ہوتے ہوئے دکھائی دئیے جہاں وہ اپنے قبضے کو اب مزید طول دے سکتا تھا۔ البتہ بلوچ نوجوان ان سیاسی مداریوں کے منصوبوں سے بے خبر بلوچ قوم کے حقوق کے لیے نعرے بلند کرتے رہے ۔تقسیم کے وقت جہاں آپ (شہید غلام محمد بلوچ)بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل تھے لیکن یہ آپ کے اختیار میں ہی نہیں تھا کہ آپ بلوچوں کی اس تقسیم کو روک سکتے حالانکہ اس سے پہلے آپ نے کہیں مرتبہ کوشش بھی کی کہ بلوچ آپس میں شیر و شکر ہوں جیسے پارٹی کے پہلے کونسل سیشن میں آپ (شہید) نے رحیم مندوخیل کی کھل کر مخالفت کی اور پارٹی کے اس آئین ساز ادارے کے پروگرام میں شہید اکبر خان کی غیر موجود گی پر آپ نے نہ صرف حیرانگی کا مظاہرہ کیا بلکہ سٹیج پہ ہی پارٹی قائدین سے جواب تک طلب کیا۔

زرعی کالج کا منصوبہ:۔
پارٹی کی اس تقسیم کی وجہ سے بلوچ قوم جس مایوسی کا شکار تھا اسے بیان کرنا ممکن نہیں۔ لیکن ان حالات میں آپ نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی تمام توانائی بلوچ قوم کو منظم کرنے اور ان کی نظریاتی تربیت پہ صرف کی۔ جس سے ایک مختصر عرصے میں قوم ایک بار پھر متحرک نظرآنے لگا۔ابھی پارٹی اور تنظیم کے اس بحران پہ بمشکل قابو پایا گیاتھا کہ ریاست نے ایک اور چال چلی جس میں چند بلوچ نوجوان شہید بھی ہوئے۔ یہ واقعہ 1991ء میں زرعی کالج منصوبے کا ہے جسے ورلڈ بینک کی توسط سے تعمیر کیا جانا تھا اور جس کے لیے ورلڈ بینک کے سروے کے مطابق ضلع مستونگ کا علاقہ غنجہ ڈھوری اور ضلع خضدار کے علاقے موزوں خیال کیے گئے جہاں اس کالج کو انہی علاقوں میں سے کسی ایک علاقے میں تعمیر ہونا تھا۔ لیکن اسلام آباد نے جب یہ دیکھا کہ بلوچ قوم پرست تقسیم کے باوجود ایک دوسرے کے مقابلے میں مسلح نہیں ہوئے تو انہوں نے بلوچستان میں رہنے والے پشتونوں اور بلوچوں کو لڑانے کے لیے اس کالج کو گلستان میں تعمیر کرنے کا پروپیگنڈہ کیا جس سے دونوں اقوام میں کالج کی تعمیر کے حوالے سے چپقلش بڑھتی گئی اور پورے بلوچ علاقوں میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی جسکی وجہ سے تمام علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس احتجاجی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے پاکستان نے پشتونخوامیپ کو استعمال کیا جس کی وجہ سے آخر کار10 اکتوبر 1991ء کو” عالمو چوک ” کوئٹہ کا واقعہ پیش آیا جہاں سات بلوچ نوجوان شہید ہوگئے۔ان کشیدہ حالات کے پیش نظر ورلڈ بینک نے اس منصوبے کو بنگلہ منتقل کردیا۔
اس احتجاج نے ایک بار پھر بلوچ قوم میں یکجہتی کو فروغ دیا۔اسی دوران آپ نے ڈاکٹر حئی سے یہ کہا کہ آپ کا دیرینہ دوست جس کا آپ دم بھرتے تھے آج ریاستی ایماء پر بلوچوں کا خون بہا چکا ہے۔ لہذا اب بھی وقت ہے کہ اس نظریے کا پرچار کیا جائے جس کا درس ہمیں شہید فدا نے دیا تھا نہیں تو آنے والے دنوں میں بلوچ جن حالات سے گزرینگے اس کا ذمہ دار آپ ہی ہونگے۔
عالمو چوک کے اس واقعے کے بعد حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے جس کی وجہ سے آپ بلوچ قوم کو متحرک کرنے کے لیے ہمہ تن جہد کررہے تھے۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے ریاست نے آپ اور آپ کے ساتھ دیگر بہت سارے بلوچ ساتھیوں کو کوئٹہ سے گرفتا ر کیا۔ جہاں آپ لوگوں کوہدہ جیل کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ لیکن عوامی احتجاج کو دیکھتے ہوئے ریاست کو آپ لوگوں کو رہا کرنا پڑا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Exit mobile version