جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ باجوڑ جیسے واقعات کے ذریعے اُن کی جماعت کا عوام سے رابطہ توڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم اس نوعیت کے اقدامات سے نہ تو پہلے ان کی پارٹی کا راستہ روکا جا سکا ہے اور نہ ہی یہ آج ممکن ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ باجوڑ حملہ ایک بڑی انٹیلی جنس ناکامی ہے۔ ’کیا یہ مجھے اعتماد دلا سکتے ہیں کہ ریاست میری جان کی حفاظت کرسکتی ہے یا نہیں؟ یا ریاست صرف مجھ سے ٹیکس وصول کرے گی اور میری جان ومال کی حفاظت نہیں کریں گی۔ مجھے شکایت ہے کہ میں نے ریاست کو بچانے کے لیے قربانیاں دی ہیں، میں نے اس ریاست کی بقا اور استحکام کے لیے جدوجہد کی ہے، میں ریاست کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہوں لیکن اکیلے ایک جماعت کیا کر سکتی ہے، پوری قوم ریاستی اداروں کی طرف دیکھ رہی ہے۔‘
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کیا ہمارے ریاستی ادارے صرف اس بات کے لیے رہ گئے ہیں کہ وہ کسی غریب مولوی کو تھانے میں لے آئیں اور ان پر الزمات لگائیں کہ تمہارے پاس کسی نے کھانا کھایا یا چائے پی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں 26 انٹیلی جنس کے ادارے ہیں، مگر وہ غائب کہاں ہیں۔
جے یو آئی کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق مولانا فضل الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ اس نوعیت کے حربوں سے ان کی جماعت کو اپنی فکر اور نظریے سے نہیں ہٹایا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ باجوڑ حملے کے تناظر میں ان کی جماعت پہلے قبائلی زعما کا جرگہ اور پھر جے یو آئی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس بلانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ موجودہ صورتحال پر غور کیا جا سکے۔
یاد رہے کہ جے یو آئی (ف) کے ورکرز کنونشن پر اتوار کے روز ہونے پر خودکش حملے میں 54 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
اس واقعے کے وقت مولانا فضل الرحمان دبئی میں موجود تھے تاہم یہ اطلاع ملنے کے بعد وہ اپنا دورہ مختصر کر کے پاکستان واپس پہنچے تھے۔