Site icon Daily Sangar

پاکستان میں ایک بار پھر عدل و انصاف کا قتل ہوا ہے، شہباز شریف

پاکستان میں سپریم کورٹ اور حکومت آمنے سامنے آگئے ۔سپریم کورٹ کے الیکشن متعلق تین رکنی متنازع ججز کے فیصلے کو حکومت نے مسترد کردیا۔

اس سلسلے میں پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ایک ہنگامی اجلاس میں سپریم کورٹ کے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن التوا کیس میں فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔

مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق وفاقی کابینہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اقلیتی ہے اس وجہ سے کابینہ کے ارکان اس کو مسترد کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب و خیبر پختونخوا میں الیکشن التوا کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو کرانے کا حکم دیا ہے جب کہ خیبر پختونخوا کے انتخابات کے معاملے پر متعلقہ فورم سے رجوع کی ہدایت کی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نےمنگل کو ہی الیکشن التوا سے متعلق تحریکِ انصاف کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔

سپریم کورٹ نے قرار دیاہے کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے آٹھ اکتوبر کی تاریخ دے کر آئینی اختیار سے تجاوز کیا۔ اس کے ساتھ یہ احکامات بھی جاری کیے کہ وفاقی حکومت انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو 10 اپریل تک 21 ارب روپے کے فنڈز فراہم کرے۔

عدالت نے قرار دیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز نہ دینے کی صورت میں مناسب حکم جاری کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت میں شامل جماعتوں کا مؤقف ہے کہ اس کیس میں پہلے سات ججوں کا بینچ تھا جن میں سے چار نے اس کیس سے اختلاف کیا ہے اس لیے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ اقلیتی ہے۔ جب کہ سپریم کورٹ کے بینچ سے سات میں سے چار جج الگ ہونے کے بعد اس کی سماعت تین رکنی بینچ نے کی جس نے پیر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا اور منگل کو اسے جاری کیا گیا۔

واضح رہے کہ ایک دن قبل پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے الیکشن التوا کے کیس کی سماعت کرنے والے بینچ پر حکومت میں شامل تمام جماعتوں نے عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ سپریم کورٹ کو الیکشن التوا کیس میں فل کورٹ کا اجلاس بلانا چاہیے تھا، قوم فل کورٹ کا فیصلہ ہی تسلیم کرے گی۔

انہوں نے عدالت کا فیصلہ محفوظ کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اہم معاملے پر تین رکنی بینچ کا فیصلہ کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی موت کو عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔ وہ 1973 کے آئین کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جب یہ آئین بنا اس وقت ان کی حکومت تھی۔

شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ یہ تاریخ کا جبر ہے کہ آج چار اپریل ہے۔ آج ہی ان کا عدالتی قتل ہوا تھا اور آج چار اپریل کو انتخابات کے التوا کے کیس میں ایک بار پھر عدل و انصاف کا قتل ہوا ہے۔

Exit mobile version