بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے درسی کتب کی ترسیل وا شاعت میں ایک اور گھپلے کا انکشاف ہوا۔جس میں سابقہ برسوں کی شائع شدہ کتابیں تقسیم کرکے کھاتہ پورا کیا جانے لگاہے ۔
سوشل میڈیا پر معاملہ رپورٹ ہونے کے بعد عوامی حلقوں نے شدید رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سکول داخلہ مہم چلانے والی جماعتیں کتابوں کی اشاعت اور ترسیل میں کروڑوں کی بد عوانی پر بھی آواز اٹھائیں ۔
واضح رہے کہ بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ میں گزشتہ کئی برسوںسے بدعوانی اور بدانتظامی کے معاملات رپورٹ ہورہے ہیں ۔ہر سال کی طرح امسال بھی درسی کتب کی اشاعت اور ترسیل میں غیر معمولی تاخیر کی گئی جبکہ گزشتہ دنوں اس بات کا بھی انکشاف ہوا تھا کہ بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ نے کسی منظوری کے بغیرنجی فرم کو فائدہ پہنچانے کے لئے اپنی مرضی سے اردو کی کتاب سے تین مضامین خارج کئے او ر لاکھوں صفحات کم چھاپ کرقومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا ۔
اب گزشتہ روز ایک اورانکشاف ہوا ہے کہ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے اندرون بلوچستان جو کتابیں تقسیم کی جارہی ہیں ان میں سال2018، 2021اور سال2022کی شائع شدہ کتابیں شامل ہیں قواعد کی رو سے ٹیکسٹ بک بورڈ زیر تعلیم بچوں کی اجتماعی تعدا د سے زائد کتب چھاپنے کا پابند ہے تاہم خدشہ ہے کہ امسال ٹیکسٹ بورڈ نے مشتہر کردہ تعداد سے کم کتابیں شائع کی ہیں اور اب اس کمی کو دورکرنے کے لئے گزشتہ برسوں کی کتابیں تقسیم کی جارہی ہیں ۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر لوگوںنے شدید رد عمل کااظہار کیا ہے اور فوری انکوائری کا مطالبہ کیا ہے ایک صارف ( عبدالخالق خاطر) نے اپنے فیس بک وال پر ڈسٹری بیوشن سینٹر کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ 96کروڑ روپے ریلیز کرکے صرف32فیصد کتابیں کوئٹہ تک پہنچی ہیں باقی68فیصد کرپشن کی نذر ہوگئے ۔