Site icon Daily Sangar

طالبان حکومت کوالقاعدہ، داعش و پنجشیرکے باغیوں سے خطرات ہیں، اقوام متحدہ

افغانستان میں طالبان کو سب سے بڑا عسکری خطرہ داعش،القاعدہ اور پنجشیر کے جنگجوؤں سے لاحق ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تیار کردہ ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو القاعدہ، داعش اور پنجشیر سے تعلق رکھنے والے باغیوں کی طرف سے خطرات لاحق ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ داعش اور القاعدہ اگلے اس برس کے دوران بین الاقوامی سطح پر حملے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

گزشتہ برس اگست میں نیٹو اور مغربی اتحادیوں کے انخلا کے بعد افغانستان کا اقتدار سنبھالنے والے طالبان ملک پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی مسلسل کوشش میں ہیں۔ تاہم انہیں کئی مسائل کا سامنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق طالبان بین الاقوامی سطح پر خود کو تسلیم کرانے اور عالمی اقتصادی نظام میں دوبارہ شامل ہو کر افغانستان کے بڑھتے معاشی اور انسانی بحران پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں ماہرین نے لکھا، ”اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تحریک میں کئی وجوہات کی بنا پر داخلی کشیدگی پیدا ہوئی، جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ طالبان کی حکمرانی منتشر، غیر مربوط، پالیسیوں کو تبدیل کرنے اور وعدوں سے پھر جانے کا شکار ہے۔“

مغربی ڈونرز کے پیچھے ہٹ جانے سے افغانستان میں انسانی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق رواں برس افغانستان میں قریب 22 ملین افراد کو ‘خوراک کے عدم تحفظ‘ جب کہ 8.7 ملین افراد کو ‘ہنگامی سطح پر خوراک کے عدم تحفظ‘ کا سامنا ہے۔

سیکورٹی کے حوالے سے نیشنل ریزسٹنس فرنٹ اور نئے گروپ ‘افغان فریڈم فرنٹ‘ نے حال ہی میں اپنی کارروائیوں میں تیزی پیدا کی ہے اور متعدد صوبوں میں حملے کیے ہیں۔

رپورٹ تیار کرنے والے ماہرین کے مطابق، ”طالبان فورسز کو بیک وقت کئی محاذوں پر مقابلہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔“ اس کے نتیجے میں طالبان ایسے گروہوں کے بارے میں سخت رویہ اختیار کر رہے ہیں، جنہیں وہ خطرہ سمجھتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق طالبان وفاداری کو قابلیت پر ترجیح دے رہے ہیں۔ وہ اقلیتی نسلی گروہوں کی بجائے پشتون رہنماؤں کو ترجیح دے رہے ہیں، جس سے ملک کے کئی علاقے کٹ رہے ہیں۔

طالبان کے دھڑے حقانی نیٹ ورک نے نئی حکومت میں اہم وزارتیں حاصل کیں اور اب وہ عملی طور پر ملک میں سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ طالبان نے القاعدہ کے ساتھ روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اس گروپ کے سربراہ ایمن الظواہری مبینہ طور پر مشرقی افغانستان میں موجود ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کا اقتدار خاص طور پر خواتین کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔

مئی کے مہینے میں وزارت ‘امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ کے ترجمان نے کہا تھا کہ خواتین کو چاہیے کہ وہ ایسے مردوں سے بات کرتے وقت، جو ان کے رشتہ دار نہیں، اپنی آنکھوں کے علاوہ سب کچھ ڈھانپ لیں۔

ترجمان نے خواتین کو کہا، ”انہیں برقع پہننا چاہیے کیوں کہ یہی روایت ہے۔ حجاب کی پابندی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جب تک ضروری نہ ہو، گھر سے باہر نہ جائیں۔“

طالبان نے چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کے سکول جانے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے، جس کے نتیجے میں عالمی بینک نے قریب 600 ملین ڈالر مالیت کے چار منصوبے معطل کر دیے۔

رپورٹ میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق کونسل کا حوالہ بھی دیا گیا، جس نے افغان مرکزی بینک کے سات ارب ڈالر کے فنڈز منجمد کرنے پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

کونسل نے ریاستوں پر ایسے اقدامات نہ کرنے، جن سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو سکتی ہوں، کی ذمہ داریوں کا حوالہ دیتے ہوئے امریکہ پر زور دیا کہ وہ اس ”یک طرفہ اقدام کو ختم کرے اور افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کی کوششوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرے۔“

افغانستان کے معاملے پر بحث کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس رواں ماہ منعقد ہو گا۔

Exit mobile version