Site icon Daily Sangar

شاری بلوچ کا لہو قرض ہے | رامین بلوچ

بلوچ قومی تاریخ میں 26اپریل کادن عہد آزادی کا نقطہ آغاز ہے جب شاری بلوچ عرف برمش چینی کنفیوشس انسٹیوٹ کے امپیرلسٹ آلہ کاروں کو ایک فدائی حملہ کا نشانہ بناکر پہلی بلوچ فدائی خاتون کا اعزاز حاصل کرتاہے شاری بلوچ کا فدائیانہ کردار جہان تاریخ کے تختی پرہمیشہ سرخرو رہے گا وہیں شاری کے اس عمل نے چینی و پاکستانی ایوانوں میں ایک بھونچال برپا کردی ہے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر شاری بلوچ ٹاپ ٹرینڈ کرچکاہے پاکستانی میڈیا جو اس وقت بلوچ قوم کے لے بلیک آؤٹ کا کردار ادا کررہاہے بلوچستان سے جڑیں خبروں کو اکثر نظر انداز کردیاجاتاہے بڑے سے بڑے سانحات پر بھی معمولی ٹیکر چلانے کی جرائت نہیں کرتے بلکہ اکثر حالات میں ریاستی مین سٹریم میڈیا پر بلوچ قومی مسئلہ کو اس کے بنیادی مطالبات اور تقاضوں سے ہٹ کر ایک جھوٹی اور گمراہ کن تصویر دنیا کو دکھانے کی سعی کی جاتی ہے ۔


پاکستان میں میڈیا کا کردار آزادانہ نہیں وہ صحافت سے زیادہ صنعت کا رخ اختیار کرکے ریاستی بیانیہ کے ترجمانی کا کردار ادا کررہے ہیں اس سے کوئی بڑی توقع نہیں کی جاسکتی اور امید رکھنا خام خیالی ہوگی لیکن سوشل میڈیا کے آنے کے بعد محدود دائروں اور برقی تاروں سے نکل کرمیڈیا ایک عام آدمی کے ہاتھوں میں آچکاہے اس سے ممکنہ طور پر ہماری آواز اور ہم سے جڑیں خبروں کو نہ تو کوئی روک سکتاہے اور نہ انہیں سنسر کیا جاسکتاہے لیکن شاری بلوچ کے جرائت مندانہ اقدام یعنی کراچی واقعہ کے بعد ریاست کے فرمان بردار میڈیا سکرینزپر بلوچ فدائی زالبول شاری بلوچ کی تصویر ہر طرف چھاگئی ہے ریاست کے دانشور تجزیہ کاراس عمل کو مختلف زاویہ اور پہلووں سے دیکھ رہے ہیں ان کے ڈیسک فورمز پر بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کے حوالہ سے ایک محتاط ملا جلا نقطہ نظر سننے اور دیکھنے کو مل رہاہے شاری بلوچ کی نظریات اس کی بائیو گرافی اور اس کی فدائیانہ عمل کو تواتر کے ساتھ زیر بحث لایا جارہاہے وہیں بشری رند زبیدہ جلال جیسے لوگ جو پہلے ہی سے ریاستی دھڑے کا حصہ دار ہے ریاست پر اپنی آزمائشی وفاداریوں کو دہرا کر شاری بلوچ اور قومی آزادی کی جدوجہد کے خلاف پروپیگنڈہ مہم میں شامل ہوکر ریاستی جواء بازی میں شریک ہے زبیدہ جلال اور بشری رند اخلاقی گراوٹ کی حدیں پار کرکے اس جھوٹ بیانیہ کو لے کر بدستور جھوٹ بولتے شرمندہ نہیں ہوتے کہ شاری بلوچ ڈپریشن یا کسی قسم کی پینک ڈس آرڈر کا شکار تھی البتہ شکیلہ نوید دہوار اور اختر حسین لانگو نے انفرادی طورپر شاری بلوچ کی جدوجہد کو سراہا اگرچہ براہ راست اس سے جڑے موقف کو بیان کرنے سے ان کی مفاداتی کردار کو خطرہ ہوسکتاہے اختر مینگل کی قوم پرستی بھی 180زاویہ پر دم توڑتے ہوئے مذمت پر آکر رکتی ہے بی این پی کے مرکزی ترجمان بھی نشان عبرت سے کم نہیں ان کی مذمتی بیان سے لگتاہے کہ یہ پارٹی شروع ہی سے کسی سمت،پروگرام یا آزادنہ اظہار رائے سے مکمل طور پر معذور ہوچکی ہے وہ رٹے رٹائے پالیسیوں سے آگے نہیں بڑھ سکتے بلکہ یہ سارے کردار ریاستی گماشتگی کے دائرہ کار سے آگے نکلنے کو اپنی موت سمجھتے ہیں انہیں ایک پروگرام یافتہ روبوٹ کی طرح استعمال کیا جارہاہے قدوس بزنجو بھی کانپتے ٹانگوں کے ساتھ کٹھ پتلی اسمبلی فلور پر یہ کہتے شرمندہ نہیں ہوتے کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں لیکن دوسری طرف ان مٹھی بھر جہد کاروں کی طاقت ان کی چہرے اور باڈی لینگویج سے ظاہر ہے ان سب میں ایک قدرمشترک ظاہر ہے کہ ریاستی قبضہ گیر یت اور نوآبادیاتی نظام کا تحفظ ان کی مرکز و محور ہے اور جب ریاست کی بنیادیں ہل جاتی ہے تو یہ اپنی مذمت کا بھڑاس نکال کر اس میں توازن قائم کرنے اور پیوند کاری کے گر استعمال کرتے ہیں اپنی اس فطرت کی بدولت بلوچ سماج میں ان پارٹیوں نے اپنی ساکھ کھوچکی ہے ماضی قریب میں عوامی بیگانگی کا اظہار ان کے تعلق داریوں سے صاف ظاہر ہے جس میں وہ ایک دوسرے کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں قدوس بزنجو کو کٹھ پتلی وزاعت اعلی دینے میں یہ نیشنل پارٹی سے بھی سبقت لیتے ہیں مقصد ریاست کی خوشنودی حاصل کرنا اور بلوچ قوم کی آزادی کے ساتھ کھلواڑ ہوتاہے آخری تجزیہ میں یہ ریاست کے سیفٹی والو کا کردار ادا کررہے ہیں ریاست اپنی فرسٹیشن کا بھاپ ان کی دروغ گوئیوں اور غلط بیانیوں سے خارج کرتی ہے۔


شاری بلوچ چاہتی تو اس کے پاس ایک آسودہ اور خوشحال زندگی گزارنے کے لئے کسی قسم کی وسائل اور انفراسٹکچر کی کمی نہیں تھی ایک لکھی پڑھی لکھی خاتوں پی ایچ ڈی ہولڈر اورسے بڑھ کر تدریس سے وابسطہ تھی شوہر ایک ڈینٹسٹ دو معصوم بچوں کی ماں لیکن وہ اپنی خاندان برادری اور خونی رشتوں کو پس پشت ڈال کرقومی آزادی کے قربان گاہ پر قربانی کے تسلسل کو ایک نئی جہت دیتی ہے یہ اس کی فکری شعور کا اعلی اظہارہے اس سے بڑھ کر قربانی کا کوئی اور بلند جذبہ نہیں ہوسکتا شاری بلوچ یہ جانتی تھی کہ اسے سکول میں جو کچھ پڑھایا گیا یہ اس کی تاریخ نہیں اسے فراموش کرکے آگے بڑھنا ہو گا اسے اپنی تاریخی جڑوں سے رشتے قائم کرنا ہو گا اس کی اپنی ایک ملک تاریخ زبان جغرافیہ اور کلچر اور تہذیبی ورثہ ہے وہ اگر کسی قوم سے برتر نہیں برابر ضرور ہے تو پھر وہ غلام کیوں؟وہ سوچ رہی ہوگی کہ قدرت کی طرف سے دیئے گئے اتنی وسائل کے باوجود ہمارے لوگ سردی گرمی اور بھوک سے کیوں لقمہ اجل بن رہے ہیں؟ وہ اپنے لاپتہ اور شہید کئے گئے بھائیوں اور ماوں کے کرب و درد کا قریب سے ادراک رکھتا ہوگا:وہ بلوچ قوم کے گھروں میں آئے روز کے چھاپوں کا قہر منظر دیکھا ہوگا؟اس نے محسوس کیا ہوگا کہ کب تک ہمارے بھائی جلا وطنی مہاجرت یا غلام کی حیثیت سے زندہ گزارسکیں گے؟ہم جبر و ظلم کے تھپیڑوں کے رحم وکرم پر کب تک جئیں گے؟وہ سوچ رہاہوگا کہ مسلمانی کے نام پر کب تک ان لٹیروں کو ہماری مصنوعی بھائی بنا یا جائیگا؟ کب تک ہمیں صوبائی خود مختیاری اور کثیر القومی ملک کا لولی پاپ دیکر ہماری آزادی پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھا جائیگا کب تک ہماری نظریاتی اساس پر ہاتھ ڈال کر خود غرضی لالچ اور خوف کا ماحول پید ا کیا جائیگا؟کب تک ہمارے لوگ کے عزت و نفس اور وقار کو تار تار کیا جائیگا کب تک ہماری ماؤں اور بہنوں کی عصمتوں کو مجروح کیا جائیگا؟اور ہم خاموش رہیں گے ۔


شاری بلوچ کا فدائیانہ کردار کوئی حادثاتی واقعہ نہیں کوئی اچانک نازل ہوتے ہوئے خیال نہیں بلکہ ایک گہری سوچ و کمٹمنٹ کا عکاس ہے شاری بلوچ بی ایس او کے پلیٹ فارم سے وابسطہ رہی ہڑتالیں بھی کی مظاہروں میں بھی حصہ لیا احتجاجوں میں حصہ دار بنے ریلیوں میں ہر اول کردار کیا لیکن وہ قومی جدوجہد کے سفر میں ان تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے سوچا ہوگا کہ یہ قابض ریاست نہ تو جمہوریت کو جانتاہے نہ یہ انسانی حقوق کو جانتاہے نہ اس کی کوئی اخلاقی اقدار تہذیب ہے، حتی کہ ان میں سیاسی عمل کو برداشت کرنے میں کوئی اخلاقی جرائت نہیں ان کے نزدیک جبر و حشت ظلم و ناانصافی کے خلاف جدوجہد سیاسی عمل نہیں بلکہ وہ ظلم و ناانصافی کے خلاف خاموش رہنے اور ان کی تابعداری میں رہ کر جینے کو ہی سیاست سمجھتاہے شاری بلوچ اس نقطہ و مقام پر پڑاؤ نہیں کرتا ن، رکتا نہیں، مایوس نہیں ہوتا وہ جانتاہے کہ اس سے آگے بھی ایک مقام ہے یہاں ٹہراؤ اور جمود سے ہماری غلامی ختم نہیں ہوجاتی پتلی گلی سے نکلنے جانے کو بزدلی اور اپنی قوم کی زندگی پر سمجھوتہ خیال کرتی ہے وہ سوچتی ہے کہ اب ریاست کی تشدد کو واپس اسے لوٹانے کا عمل ہی ہماری نجات کا ضامن ہے وہ مسلح جدوجہد کا حصہ بن جاتا ہے ۔دوسال پہلے وہ اپنا نام بلوچ فدائیں کی فہرست میں شامل کرواتاہے اسے کہا جاتاہے یہ اپنی نوعیت میں ایک بہت بڑا فیصلہ ہے اس پر آپ کو گہرائی وباریک بینی سے سوچنا ہوگا فدائی حملہ سے چھ مہینے پہلے انہیں پھر موقع دیاجاتاہے کہ اپنے اس فیصلہ پر نظر ثانی کرے سوچ و بچار کرے لیکن شاری بلوچ اپنی موقف پر پہلے ہی دن کی طرح مضبوط اور ڈٹی رہتی ہے وہ فیصلہ دے چکی تھی پیچھے ہٹنا ان کی ڈائری میں شامل نہیں تھی۔ بلآخرشاری بلوچ 22 اپریل کو چینی کنفیوشس انسٹیوٹ پر ایک فدائی حملہ کے صورت میں اپنے فیصلہ کو عملی جامہ پہنا کر بلند حوصلوں کے ساتھ آزادی کا دلہن بن جانے کو ترجیح دیتے ہوئے نظریات کی صداقت اور سچائی کو ثابت کرتی ہے کہ فکری رشتے خونی رشتون سے زیادہ اہم اور گہرے ہوتے ہیں، بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹریو میں اس کے شوہر ڈاکٹر ہیبتان بشیر کا کہناہے کہ میرے اندازے کے مطابق شاری دو سال سے زائد عرصہ قبل وہ مجید بریگیڈ میں فدائی کے طور پر اپنا نام دے چکی تھیں، اس فیصلے پر پہنچنے کے بعد مجھے اس نے آگاہ کیا تو میں نے اس سے دریافت کیا تھا کہ کیا یہ ایک شعوری فیصلہ ہے یا جذباتی؟ تو اس نے کہا کہ خود کو قربان کرنے سے بھی کیا کوئی بڑا شعور ہو سکتا ہے، میں نے اس کے فیصلے کا احترام کیا۔


شاری کے یہ لافانی الفاظ کہ خود کو قربان کرنے سے بڑا کوئی شعور ہوسکتا ہے اس کی معیاری فکر کا اعلی اظہار ہے شاری بلوچ کا یہ الفاظ زہن اور ضمیر کو جنجھوڑ دینے والی ہیں اس نے اپنے نظریات عمل اور جدوجہد سے جو راستہ متعین کئے ہیں وہی راستہ ہماری بقاء اور آزادی کا راستہ ہے وہ ایک پیش بین رہبر کے طور ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ریاست سے ٹکرائے بغیر آزادی ایک یوٹو پیائی تصور ہے آزادی کے لئے جان کی قیمت پر لڑنا پڑتی ہے ریاست کے ساتھ ٹکرانا قومی جدوجہد کا ایک ناگزیر مرحلہ ہے جس میں اپنی زندگی جان مال اور رشتوں کی قربانی دیکر اسے عبور کیا جانا ہی اصل جدوجہد ہے۔ وہ ہمیں درس دیتاہے کہ ہمیں پروفیشنل جہد کار بننا چاہیے اس نے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جدوجہد کوئی ٹریجڈی نہیں کوئی تفریحی پوائنٹ نہیں اور نہ ہی یہ کھیل کا میدان ہے یہاں آغاز سے انجام تک کسی جہد کار پر پھول نچھاور نہیں کئے جاتے یہ خاردار راستوں کا سفر ہے جنگ کا ہر لمحہ قربانی پر منتج ہے صرف شہادتیں قربانی نہیں یہاں ہر موڑ پر غاصب اور استحصالی قوتوں سے ٹکراؤ کا سامنا ہوجاتا ہے یہ تکلیف دہ اور مصائب سے لبریز صبر آزما اور بلند حوصلوں پر مشتمل ہوتاہے یہ کوئی شارٹ کٹ وے نہیں ایک لمبی اور طویل المیعاد جدوجہد ہے یہاں اپنے نظریات کو ذہنی تسکین یا نرگسیت سے نہیں لپیٹا جاسکتا یہ جان جھونکا دینا والی عمل ہے یہاں اپنی نظریات اور لائحہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جرائت اور دلیری کی ضروت ہوتی ہے یہاں قبضہ گیر سے مصالحت کے بجائے اس کے سٹیٹس کو کو چیلنج کیا جاتاہے۔ جدوجہدکا ہر سیکنڈ ہماری جرائت اور عزم کا امتحان لیتی ہے یہ عمل شاری جان کے ساتھ اختتام پزیر نہیں ہوا شاری نے کہا یہ ایک مرحلہ وار عمل ہے
بہر حال شاری کا یہ تاریخی عمل ہمار تاریخ کے اس شگاف کو بھی پر کردیا ہے کہ آزادی کی جدوجہد صرف مردوں کی زمہ داری ہوتی ہے بلکہ یہاں خواتیں کو بھی کردار ادا کرنا چاہیئے اور اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرنا چاہیے۔

شاری نے ثابت کردیا کہ آزادی کی جدوجہد بڑے بڑے معتبر نام نہاد قوم پرستی کے دعویدار اسمبلیوں میں بھیٹھ کر تھیسز دینے والے نام نہاد قوم پرست نہیں کرتے جن کی نظریاتی غداریوں نے آج انہیں ایک سیاسی قبرستان کے مقام پر لا کھڑا کردیا ہے یہ لوگ گماشتگی اور غلامی کے عادی ہوچکے ہیں ان سے جدوجہد کا توقع کرنا بے وقوفی ہوگی۔


آزادی کی جدوجہد ہمیشہ عام لوگ کرتے ہیں جن کی زندگی کا بڑا حصہ گمنامی اور خاکساری میں گزر جاتاہے یہ ہیروازم نمود نمائش سماجی رتبہ منصب اور عہدوں کی کوئی اہمیت نہیں رکھتی یہ اپنے موقف پر کھبی کمپروپائز نہیں کرتے انہیں کوئی لالچ انہیں ان کی منزل اور ارادوں سے نہیں ہٹاسکتا وہ اپنے قربانیوں سے جدوجہد کا حوصلہ اور توانائی بنتے ہیں۔


شاری بلوچ کا لہو قرض ہے اور یہ قرض آزادی کے جدوجہد کے مرحلہ وار تسلسل اور اپنے حصہ کا کردار اداکرنے سے چکائی جاسکتی ہے اور پھر شاری بلوچ کو حقیقی خراج پیش کرنے کا حق ادا ہوجاتاہے۔

Exit mobile version