Site icon Daily Sangar

ترکی:صدراردوان کے ناقد دانشور کو بغاوت کے الزام میں عمر قید کی سزا

ترکی کی ایک عدالت نے معروف دانشور اور حقوق کی مہم چلانے والے عثمان کاوالا کو انتہائی متنازع بغاوت کی سازش کے الزامات میں عمر قید کی سزا سنادی جو پہلے ہی جرم ثابت ہوئے بغیر 4 سال سے جیل کاٹ رہے ہیں۔

3 ججز کے پینل نے 7 دیگر مدعا علیہان کو بھی حکومت گرانے کی کوشش میں مدد کرنے کے الزام میں 18، 18 سال قید کی سزا سنائی۔

عالمی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق غالب امکان ہے کہ نیٹو اتحاد میں شامل ترکی کے اہم اتحادیوں کی جانب سے اس فیصلے کی مذمت کی جائے گی۔

عدالت کے فیصلے پر کمرہ عدالت میں موجود سامعین کی جانب سے افسوس کا اظہار کیا گیا جن میں وہ مغربی سفارت کار بھی شامل تھے جو انقرہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں انسانی حقوق کے مسائل اور عدالتی آزادی کی اہمیت پر زور دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایما سنکلیئر ویب نے اس فیصلے کو اس شو ٹرائل کا بدترین ممکنہ نتیجہ قرار دیا۔

عثمان کاوالا کے وکلا نے فوری طور پر اپیل کرنے کا عزم کیا، انہوں نے استنبول کے قریب اپنی ہائی سیکیورٹی جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کو بتایا کہ وہ اس سارے عمل کو عدالتی قتل کے طور پر دیکھتے ہیں۔

تینوں ججز نے برسوں میں ترکی کے سب سے زیادہ ہائی پروفائل ٹرائلز میں سے ایک میں اپنی سزا سنانے میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت لیا۔

سال 2017 میں گرفتاری سے قبل 64 سالہ عثمان کاوالا ایک نرم گو تاجر کے طور پر مشہور تھے جو اپنی دولت کا ایک حصہ ثقافت اور منصوبوں کو فروغ دینے کے لیے استعمال کر رہے تھے جس کا مقصد ترکی اور اس کے قدیم دشمن آرمینیا میں مصالحت کرنا تھا۔

تاہم صدر رجب طیب اردوان نے انہیں ہنگری میں پیدا ہونے والے امریکی ارب پتی جارج سوروس کے بائیں بازو کے ایجنٹ کے طور پر پیش کیا جس پر ریاست کو گرانے اور گرانے کی کوشش کرنے کے لیے غیر ملکی پیسہ استعمال کرنے کا الزام تھا۔

اردوان نے 2020 میں اپنے ایک اعلان میں کہا تھا کہ ہم کبھی بھی عثمان کاوالا جیسے لوگوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔

عثمان کاوالا پر سب سے پہلے 2013 میں چند مظاہروں کو فنڈ دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا جسے کچھ تجزیہ کار طیب اردوان کے 20 سالہ اقتدار کے آخری نصف حصے میں مزید آمرانہ طرز عمل کی ابتدا کے طور پر دیکھتے ہیں۔

فروری 2020 میں ایک عدالت نے انہیں بری کرتے ہوئے رہا کر دیا تھا تاہم انہیں اپنی اہلیہ کے گھر واپس آنے کا موقع ملنے سے پہلے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔

بعد ازاں ایک اور عدالت نے ان پر 2016 کی ناکام مگر خونی بغاوت کی کوشش میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جس کے نتیجے میں برسوں سے جاری کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا جس میں دسیوں ہزار افراد کو جیل بھیج دیا گیا یا ان کی سرکاری ملازمتیں چھین لی گئیں جبکہ عثمان کاوالا کو ان دونوں چیزوں کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کے سلوک نے یورپی کونسل کو غیر معمولی تادیبی کارروائی شروع کرنے پر آمادہ کیا ہے جو بالآخر خطے کے انسانی حقوق کے اہم گروپ میں ترکی کی رکنیت کو معطل کر سکتی ہے۔

Exit mobile version