Site icon Daily Sangar

بلوچ لاپتہ افراد و شہدا کے بھوک ہڑتال کیمپ کو 4594 دن ہوگئے

بلوچ لاپتہ افرادو شہدا کا بھوک ہڑتال کیمپ کراچی میں جاری ہے،احتجاج کو 4594 دن ہوگئے۔

لیاری کراچی سے سیاسی سماجی کارکن پھلین بلوچ عبّاس بلوچ بابل بلوچ نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ وفد سے مخاطب ہوکر کہا کہ بلوچستان پر قابض قوتوں کا مزید اُنہیں سفاک بنادیا ہے جس وحشیانہ مظاہرہ بین الاقومی طور پر تسلیم شدہ جنگی قوانین و اصولوں کو پامال کرتے ہوئے بلوچ نسل کشی فوجی کارروئیوں میں لائی جانے والی شدّت کی صورت میں کہا جارہا ہے۔ ان فوجی کارروائیوں میں عام بلوچ آبادیوں پر بمباری گھروں کو نذر آتش کرنا خواتین بچوں بوڑھوں سمیت نہتے بلوچوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اُنہیں غائب کرنا جس طرح ابھی چار دنوں کوئٹہ نوشکی پنجگور سے درجنوں بلوچوں کو اغوا کیا گیا اور کہیں لوگوں کو تشدد کرنے کے بعدلاشوں کو لواحقین کے حوالے کرنے کی بجا ئے اجتماعی قبروں میں دفن کردیاگیا۔

ماما قدیر نے کہا کہ اپنے زرخیروں کے ذریعے بلوچ طلبہ نوجوانوں سیاسی کارکنوں سمیت مختلف شعبہ آئے زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کو ٹارگٹ کرنا اور دیگر بلوچ نسل کشی اقدامات شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی فورسز کی ان سفاکانہ کارروائیوں کو پوری دنیا جنگی جرائم تسلیم کرتے ہوئے اس کی فوری روک تھام پر زور دے رہی ہے مگر ریاستی فورسز اور حکمران قوتیں بلوچ قومی پُر امن جدجہد کی کامیابیوں کے صدمے سے اس قدر بہرے ہو چکی ہیں کہ انہیں روکنے والی کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ ان فوجی کارروائیوں میں مکران پنجگور نوشکی کوئٹہ کو شدید نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہی کیفیت ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان بھر کی ہے تاہم گزشتہ کچھ دنوں سے مکران میں بلاتوقف پے درپے فوجی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیاہے جس میں فضائی بمباری اور زمینی کارروائی دونوں ذرائع کو استعمال کیا جارہا ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ پنجگور میں مختلف بلوچ آبادیوں پر بمباری کرکے انہیں تہس نہس کردیا گیا ہے جس میں خواتین بچوں کی بڑی تعداد نشانہ بنی ہے۔ کارروائیوں میں اب تک درجنوں بے گناہ افراد گرفتار لاپتہ کیے جاچکے ہیں۔ان تمام بلوچ نسل کش کارروائیاں جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں پاکستانی جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعویدار ہے۔

Exit mobile version