Site icon Daily Sangar

امریکی انٹیلی جنس کا طالبان جانب دوحہ معاہدے کی پاسداری نہ کرنیکا دعویٰ، طالبان کی تردید

امریکی حکومت کو خفیہ اطلاعات ملی ہیں کہ طالبان، امریکا کے ساتھ ہونے والے حالیہ معاہدے میں کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کریں گے۔

میڈیارپورٹوں کے مطابق این بی سی نیوز کی رپورٹ میں 3 امریکی حکام کے انٹریو شامل کیا گیا جنہیں ٹرمپ انتظامیہ کو 29 فروری کو دوحہ میں طالبان سے ہونے والے معاہدے کے بعد ملنے والی خفیہ رپورٹس پر بریفنگ دی گئی تھی۔

ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ‘ان کا معاہدے کی پاسداری کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے’ جبکہ دیگر دو نے خفیہ معلومات کے حوالے سے بتایا کہ ‘یہ انتہائی برے شواہد تھے جو طالبان کے ارادوں پر روشنی ڈالتے ہیں’۔

دوحہ معاہدے میں طالبان نے دہشت گردوں کو پناہ گاہ نہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کا کہا گیا تھا کہ جس کے بدلے میں امریکا نے 14 ماہ کے اندر افغانستان سے اپنی تمام فوج کو واپس بلانے کا وعدہ کیا تھا۔

انٹیلی جنس کی معلومات رکھنے والے ایک افسر نے این بی سی نیوز کو بتایا کہ ‘ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اپنی طرف کے معاہدے کی پاسداری کریں گے تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے اصل ارادے جانتے ہیں’۔

سابق امریکی حکام نے بتایا کہ انتظامیہ ویتنام کی طرح سے افغانستان جنگ کے خاتمے کے خدشات جانتی ہے جس میں طالبان معاہدہ توڑ دیں گے اور ملک پر قبضہ کرلیں گے تاہم کوئی بھی اس بارے میں بات نہیں کر رہا ہے۔

اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاو¿س میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس امکان کا علم رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ممالک کو اپنا خیال خود رکھنا ہوتا ہے، آپ صرف کسی شخص کا ہاتھ ہی تھام سکتے ہیں’۔

کیا طالبان اقتدار میں آجائیں گے؟ سے متعلق سوال کے جواب میں امریکی صدر نے کہا کہ ‘اس میں ممکنات کا دخل نہیں بلکہ ایسا ہوگا’۔

امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو جو دوحہ میں معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شریک تھے کا کہنا تھا کہ ابھی کوئی فیصلہ سنانا قبل از وقت ہوگا۔

واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے دیکھا ہے کہ طالبان کی سینئر قیادت تشدد کو کم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے اور ہمیں اب بھی اعتماد ہے کہ طالبان کی قیادت اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے’۔

اس معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات کی بحالی اور دونوں جانب سے ہزاروں قیدیوں کی رہائی ضروری ہے تاہم افغان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

این بی سی نیوز سے گفتگو کرنے والے دو دفاعی حکام کے مطابق حالیہ انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق طالبان افغان فورسز پر حملے جاری رکھیں گے تاکہ حکومت کو قیدیوں کے تبادلے کے لیے دبائو ڈالا جاسکے۔

دیگر دفاعی و انٹیلی جنس حکام کا کہنا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ امریکی صدر افغانستان سے امریکی افواج بلانے کے لیے پرعزم ہیں بھلے اس انخلا کے بعد طالبان جو بھی کریں۔

سابق سی آئی اے حکام ڈوگ لندن کا کہنا تھا کہ ‘زلمے خلیل زاد ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابات میں کوور دینے کی کوشش کر رہے ہیں’۔

طالبان نے امریکی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 29 فروری کو امریکہ کے ساتھ طے پانے والے ‘امن معاہدے’ پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔

طالبان ترجمان سہیل شاہین نے اپنی ٹوئٹ میں امریکی ٹی وی پر شائع ہونے والے امریکی خفیہ ادارے کے تین اہلکاروں کے دعووں کی تردید کی ہے۔ مذکورہ خبر میں خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے دعویٰ کیا تھا کہ طالبان امریکہ کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ برقرار رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاو¿س میں ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد طالبان افغان حکومت گرا کر خود اقتدار پر قابض ہو سکتے ہیں۔

البتہ، سہیل شاہین نے ان دعووں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ امن معاہدے پر عمل درآمد تسلی بخش رفتار میں آگے بڑھ رہا ہے۔

امریکی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبر میں کہا گیا تھا کہ امریکی انتظامیہ کے پاس انٹیلی جنس رپورٹیں موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ طالبان سمجھوتے میں کیے گئے وعدوں کی پاسداری کا ارادہ نہیں رکھتے۔

اس سے قبل ایک بیان میں سہیل شاہین نے کہا تھا کہ اگر معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ ہو جاتا ہے تو طالبان بین الافغان مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ بین الافغان مذاکرات کے لیے وفد اور ایجنڈے کو حتمی شکل دی جا چکی ہے۔

طالبان اور امریکہ کے درمیان 29 فروری کو طے پانے والے معاہدے کے باوجود افغانستان میں پرتشدد واقعات جاری ہیں۔ طالبان کی جانب سے افغان فورسز اور پولیس کے خلاف حملے کیے گئے جب کہ امریکہ نے بھی طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے۔

چند روز قبل کابل ہزارہ قبیلے کی ریلی میں فائرنگ سے درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ البتہ اس حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ (داعش) نے قبول کی تھی۔

حالیہ کشیدگی کے باعث بعض مبصرین اس معاہدے کے مستبقل کے حوالے سے خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔ البتہ طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔

امریکہ، طالبان 29 فروری کو طے پانے والے معاہدے میں 14 ماہ کے اندر امریکی فوج کے انخلا اور قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

امن معاہدے میں طالبان نے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے خلاف حملے نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ معاہدے میں یہ بھی شامل تھا کہ طالبان افغانستان کی سرزمین امریکہ سمیت دیگر ممالک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

Exit mobile version