Site icon Daily Sangar

ایران دس ہفتوں کے اندر اندر جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے، اسرائیل کا انکشاف

فوٹو بشکریہ اے پی

اسرائیلی اعلیٰ قیادت نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول سے صرف دس ہفتے دور ہے۔ مبصرین کی رائے میں ایران اور اسرائیل ’خفیہ جنگ‘ جاری رکھے ہوئے ہیں اور مستقبل قریب میں صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ ییئر لپیڈ اور وزیر دفاع بینی گانٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر ایران چاہے، تو صرف دس ہفتوں کے اندر اندر جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ سن 2015 میں عالمی قوتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہو گی۔ اسرائیلی وزراء نے چار اگست کو جاری کردہ تفصیلی بیان میں یہ الزام بھی عائد کیا کہ ‘میرسر اسٹریٹ‘ نامی آئل ٹینکر پر حالیہ حملے میں ایران ملوث تھا۔ ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک سینئر اہلکار پر براہ راست انگلی اٹھائی گئی ہے۔

رواں سال چوبیس اپریل کو شامی بندرگاہ بانیاس پر ایک ایرانی آئل ٹینکر پر ڈرون حملہ کیا گیا تھا جس میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ ٹینکر بھی آتش زدگی کا شکار ہو گیا تھا۔ یہ ایران کی اسرائیل اور اس کے خلیجی پڑوسی ملکوں کے ساتھ کشیدگی کی تازہ ترین مثال تھی۔

اب ایران میں سخت گیر نظریات کی حامل قوتیں حکومت میں ہیں۔ ایسے میں یہ تنازعہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دن خلیج عمان میں اسرائیلی آپریٹر کے ایک تجارتی بحری جہاز پر حملہ ہوا جس کے لیے ایران کو قصور وار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اسی ہفتے منگل کو ایک بحری جہاز کو ہائی جیک کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔

اسرائیل اور ایران کے تنازعے کی ایک کلیدی وجہ ایران کا متنازعہ جوہری پرگرام ہے۔ دس اپریل کو ایران کے مرکزی نطنز کے جوہری پلانٹ پر ایک سائبر حملہ ہوا۔ امریکی اخبار ‘دا نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق اس حملے میں ایک پاور پلانٹ اور سینٹریفیوجز کو نقصان پہنچا، تہران حکومت نے اسرائیل پر الزام عائد کرتے ہوئے اسے ‘جوہری دہشت گردی‘ قرار دیا۔

صدر جو بائیڈن کی قیادت میں امریکی حکومت ایران کے ساتھ از سر نو ایک ڈیل تشکیل دینا چاہتی ہے لیکن اس ضمن میں مذاکراتی عمل تعطلی کا شکار ہے۔ اب جبکہ ابراہیم رئیسی صدر کے منصب پر فائض ہو رہے ہیں، ایران کے موقف اور حکمت عملی میں سختی متوقع ہے۔ انہیں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی حمایت حاصل ہے، جو بارہا کہتے آئے ہیں کہ امریکا کے لیے آئندہ کی کسی ممکنہ ڈیل سے یک طرفہ علیحدگی اختیار کرنا ممکن نہ ہو گا۔ ایران چاہتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ یہ یقین دہانی کرائے اور اس کی بھی کہ مزید پابندیوں کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔ یہ وہ معاملہ ہے، جسے کانگریس سے منظور کرانے میں بائیڈن انتظامیہ کو یقیناً مشکل پیش آئے گی۔

یہ امر اہم ہے کہ سن 2015 میں جوہری ڈیل کو حتمی شکل دیے جانے سے پہلے کے کچھ عرصے میں بھی ایران اور اسرائیل کے مابین شدید کشیدگی جاری تھی۔ تہران میں ایک جوہری سائنسدان کا مبینہ قتل، نئی دہلی میں اور بینکاک میں اسرائیلی سفارت کارروں پر مشتبہ ایرانی حملے اور بلغاریہ میں اسرائیلی سیاحوں کی بس پر دھماکا یہ سب واقعات اسی دور کے ہیں۔ سن 2018 میں امریکا کی جوہری ڈیل سے علیحدگی کے بعد گزشتہ ایک دو برسوں کے دوران اسی طرز کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ دو برس قبل خلیج کے خطے میں آئل ٹینکروں پر حملے دیکھے گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران میں نئی انتظامیہ کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔

Exit mobile version