Site icon Daily Sangar

افغانستان میں طالبان کی بزورطاقت حاصل کردہ حکومت کو قبول نہیں کرینگے، امریکا

امریکا نے طالبان کو خبردار کیا ہے کہ دنیا افغانستان میں طاقت کے ذریعے مسلط کردہ حکومت کو قبول نہیں کرے گی کیونکہ ایک انٹیلی جنس رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ امریکی انخلا کے بعد کابل میں موجودہ سیٹ اپ 6 ماہ کے اندر ہی ٹوٹ سکتا ہے۔

واشنگٹن میں نیوز بریفنگ کے دوران محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بھی عندیہ دیا کہ افغانستان کے لیے امریکی مالی مدد صرف اسی صورت میں جاری رہ سکتی ہے جب اس ملک میں ایسی حکومت بنتی ہے جسے سب تسلیم کریں۔

نیڈ پرائس نے کابل حکومت کے خلاف طالبان کے حالیہ کنٹرول کے بارے میں میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا افغانستان میں کسی حکومت کی طاقت سے مسلط کرنے کو قبول نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ آپ نے یہ بات سفیر (زلمے) خلیل زاد سے سنی ہے، آپ نے یہ بات سیکریٹری (انٹونی) بلنکن اور دوسرے عہدیداروں سے بھی سنی ہے۔

اس سے قبل بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے انہیں باور کرایا کہ جب سے امریکی صدر جوبائیڈن نے تمام امریکی افواج کے انخلا کے منصوبے کا اعلان کیا تھا، عسکریت پسندوں نے افغانستان پر اپنے کنٹرول کو 50 سے زائد اضلاع تک بڑھا دیا ہے۔

خیال رہے کہ جوبائیڈن نے 11 ستمبر تک افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا۔

نیڈ پرائس نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کسی بھی افغان حکومت کے لیے قانونی حیثیت اور امداد اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ حکومت انسانی حقوق کا احترام کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر عوامی نظروں میں حکومت کی ساکھ ہے اور اس کے پاس قانونی حیثیت ہے تو قابل قبول ہوگی۔

عالمی بینک کے مطابق افغانستان کا تجارتی خسارہ جی ڈی پی کے تقریبا 30 فیصد کے برابر ہے۔

عالمی مالیاتی ادارہ افغانستان کے لیے مختص گرانٹ 75 فیصد عوامی اخراجات کی مالی اعانت جاری رکھے ہوئے ہے، حفاظتی اخراجات بھی 2019 میں جی ڈی پی کے تقریباً 28 فیصد زیادہ تھے۔

امریکا، افغانستان کو 35 ارب ڈالر سے زیادہ امداد دینے والا سب سے بڑا ملک ہے اس کے بعد جرمنی (28.4 ارب ڈالر)، برطانیہ (18.6 ارب ڈالر)، جاپان (16.3 ارب ڈالر) اور فرانس (14.1 ارب ڈالر) دیے ہیں۔

Exit mobile version