Site icon Daily Sangar

افغانستان سے 25 فیصد امریکی فوجی انخلا مکمل،جوبائیڈ انتظامیہ سخت تنقید کی زد میں

امریکی فوج نے افغانستان سے انخلا کے عمل کا 25 فی صد کام مکمل کر لیا ہے جب کہ حزبِ اختلاف ری پبلکن پارٹی اور بعض سابق فوجی عہدیدار بائیڈن انتظامیہ کی افغانستان سے انخلا کی پالیسی پر سخت تنقید کر رہے ہیں۔

امریکہ اور نیٹو افغانستان سے انخلا کے باوجود کابل کے ساتھ دیرپا شراکت اور امن عمل کے لیے اپنی مدد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔

امریکی فوج کے افغانستان مشن کی نگرانی کرنے والی کمان کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ ”امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے اندازے کے مطابق انہوں نے انخلا کے عمل کا 16 سے 25 فی صد کام مکمل کر لیا ہے۔”

وائس آف امریکہ کی کارلا بیب کی رپورٹ کے مطابق، سینٹ کام نے کہا ہے کہ اس نے 160 سی۔17 طیاروں میں جتنا سامان لے جایا جا سکتا ہے، اس وزن کے برابر ساز و سامان افغانستان سے نکال لیا ہے اور دفاعی ساز و سامان کے 10 ہزار پرزے یا اجزا امریکی دفاعی لاجسٹکس ایجنسی کے حوالے کر دیے ہیں۔

دوسری طرف امریکی حزبِ اختلاف کی جانب سے صدر بائیڈن کی افغانستان سے انخلا کی پالیسی پر سخت تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔

امریکی سینیٹ میں ری پبلکن راہنما مچ میکانل نے کہا ہے کہ انتظامیہ نے جلد بازی میں فیصلہ کیا ہے، جو خطے کو بحران سے دوچار کر دے گا اور القاعدہ جیسی تنظیموں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع فراہم کرے گا۔

امریکہ میں بعض دفاعی ماہرین بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں تاہم بائیڈن انتظامیہ پراعتماد ہے کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد امن عمل آگے بڑھے گا۔

امریکہ کے دفاعی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ اس بارے میں منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کہ انخلا کے بعد امریکہ أفغانستان سے ابھرنے والے کسی نئے خطرے سے کیسے نمٹے گا۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ کچھ بیانات کے باوجود بائیڈن انتظامیہ اب تک انخلا ٗ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کسی واضح حکمت عملی کا اعلان نہیں کر سکی۔

پینٹاگان میں سپیشل آپریشنز اورانسداد دہشت گردی کے شعبے کے لئے نائب معاون وزیر میلانسی ہیرس نے منگل کو ایک ویب سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”اس بارے میں ابھی کام ہو رہا ہے”۔

انہوں نے کہا کہ أفغانستان کے پڑوسی ملک ایران، پاکستان اور روس کے زیر اثر وسط ایشیائی ملک ”ممکنہ طور پر ہمیں انسداد دہشت گردی آپریشنز کے لئے اپنے ملکوں میں کوئی بامعنی یونٹس رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے”۔

تاہم ہیرس نے کہا کہ ”انتظامیہ بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ انخلا کی منصوبہ بندی اچھی طرح سوچ سمجھ کر کی جائے”۔

ہیرس نے أفغانستان میں دہشت گرد گروپوں کے خلاف اب تک کی جانے والی کوششوں کو ایک مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی توجہ ”ضرورت کے مطابق فوری اور مناسب جواب دینے کے قابل ہونے پر مرکوز ہے”۔

واشنگٹن میں حزب اختلاف بدستور صدر بائیڈن کی افغانستان سے انخلا کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ ری پبلکن کے چوٹی کے راہنما مچ میکانل نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے اس حکمت عملی کو غیر واضح اور خوش امیدی پر مبنی خطرناک پالیسی قرار دیا ہے۔

ان کے الفاظ ہیں،”جب انتظامیہ سے گفت و شنید ہو رہی ہے تو یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یہ فیصلہ کسی ایسے مربوط منصوبے کے تحت نہیں لیا گیا، جو وہاں سے ہمارے نکلنے کے بعد پیدا ہونے والے جغرافیائی و سیاسی اور انسانی بحران سے نمٹ سکتا“

ری پبلکن راہنما کا مزید کہنا تھا کہ جب ہم وہاں سے نکل جائیں گے تو اس بات پر یقین کر لینے کی بے شمار وجوہات موجود ہیں کہ القاعدہ اپنے اس تاریخی محفوظ پناہ گاہ میں دوبارہ منظم ہو جائے گی۔

Exit mobile version