Site icon Daily Sangar

ستائیس مارچ – بلوچستان پرپاکستان کے جبری قبضے کادن-اداریہ ماہنامہ سنگر مارچ شمارہ

جب بلوچوں نے ہر حال میں اپنی قومی ریاست کی آزادی کو برقرار رکھنے کا عملی مظاہرہ کیا تو جناح جیسے مکار نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے بلوچستان کا رخ کیا جہاں 5۱ فروری1948ء کو جناح نے ڈھاڈر میں خان قلات سے ملاقات کرکے بلوچ ریاست کو پاکستان جیسے غیر فطری ملک میں شامل کرنے کی تگ و دو کی۔اس دوران میر احمدیار خان نے اسے پارلیمنٹ کی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے اپنی بے اختیاری کااظہارکیا۔کیونکہ قلات(بلوچستان) پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے پاکستان کے ساتھ بلوچستان کی الحاق کے تجویز کو بھاری اکثریت سے مسترد کیا تھا۔21 فروری1948ء کو بلوچ ریاستی پارلیمنٹ کے دارلعوام کاپھر اجلاس ہوا جس میں الحاق کے مسئلے میں بات چیت ہوئی لیکن اس غیر فطری الحاق کی تجویز کو پھر مسترد کیا گیا۔جس سے مایوس ہوکر جناح نے ریاست قلات کے معاملات کافائل دفترخارجہ کے حوالے کیااور اس بارے میں 9 مارچ1948ء کو ایک مراسلہ کے ذریعے خان قلات کو آگاہ کیا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے جناح 17 مارچ1948ء کو جام غلام قادر (جام لسبیلہ) دارالامراء کے رکن نواب بائی خان گچکی اور نواب خاران میر حبیب اللہ نوشیروانی کو جھانسا دینے میں کامیاب ہوگیا جس کے بعد انہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔دنیا کا کوئی قانون اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کہ کسی ملک کے کسی حصے کو اس ملک کے قانون و آئین اور جمہوری اداروں کے برخلاف ہڑپ کیا جائے۔ لیکن پاکستان نے برطانوی سپہ سالار اور جناح جیسے مکار کی چالبازیوں سے اس غیر قانونی اقدام کے مرتکب ہوئے۔ پاکستان کے اس غیر قانونی اقدام کے خلاف ریاست قلات نے احتجاجی مراسلے لکھیں لیکن پنجابی سرکار طاقت کے نشے میں کسی آئینی اقدام کو خاطر میں لانے والے نہیں تھے۔


جب دنیا نے پاکستان کے اس غیر قانونی اقدام کے خلاف کوئی آوز بلند نہیں کیا تو26 مارچ1948ء کو پاکستانی بری اور بحری افواج نے ساحلی علاقوں سمیت کیچ اور پنجگور پہ لشکر کشی کی۔ پاکستان نے مختلف حیلوں، بہانوں، لالچ اور جبر اًہر طرح سے آخر کاربلوچستان پر اپنا قبضہ مکمل کرلیا۔“ اس دوران خان احمدیار خان اس غیر قانونی اقدام کے خلاف آواز بلند کرنے کراچی میں موجود تھے جہاں ان سے زبردستی ریاست قلات کی پاکستان کیساتھ الحاق نامہ پردستخط لئے گئے۔ اس کے باوجود بھی پاکستانی فوج یلغار کرتا ہوا ریاست قلات کے مرکزی شہر قلات پہ بھی27 مارچ 1948ء کوعسکری طاقت کے بل بوتے پہ قبضہ کرلیا۔


مارچ کا مہینہ بلوچ تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے،اسی مہینے کو بلوچ پر جبری قبضہ کیا گیا۔27 مارچ 1948 کو بلوچ سرزمین پر قابض ریاست نے قبضہ کر کے بلوچ قوم کو غلام بنا دیا،73 سالوں کی غلامی نے ہزاروں بلوچ فرزندوں کا لہو بہتادیکھا،ہزاروں بلوچ لاپتہ کیے گئے،لاکھوں بلوچ آئی ڈی پیز بن گئے مگر73 سالہ غلامی بلوچ قوم کو سرنگوں نہ کر سکی۔


بلوچ طویل غلامی کے خلاف لڑا،جہد کی،اپنی قومی شناخت کے حصول کے لیے اپنی نسلیں قربان کیں اور کر رہا ہے جسکی وجہ سے وہ آج ایک زندہ قوم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ان73 سالوں کی غلامی کے خلاف جہد میں نشیب و فراز آتے رہے،2002 کے بعد بلوچ آزادی کی جہد پہلی بار مستقل اور تنظیمی بنیادوں پر استوار ہونا شروع ہوئی۔قابض کے خلاف جہاں سیاسی و مزاحمتی لڑائی میں تیزی آئی تو ہزاروں بلوچ ٹارگٹ اور زیر حراست قتل کیے گئے،ہزاروں جبری گمشدگیاں ہوئیں اور دو لاکھ سے زائد افراد کو اپنی سرزمین سے جبری طور پر آئی ڈی پیز بنا دیا گیا،مگر غلامی کے خلاف قوم کی لہو قربانیوں نے انھیں شعور سے روشناس کرایا۔


73 سالہ طویل غلامی نے آج بلوچ جہد کو شعوری و سیاسی بنیادوں پر استوار کر دیا ہے،جوکسی بھی قوم کے زندہ ہونے کی نشانی ہوتی ہے۔آج کا دن ہر سال بلوچستان بھر میں بطور یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتاہے۔


اس دن کی تاریخی حیثیت اوراہمیت کوپہلی بار بلوچ نیشنل موومنٹ کے شہید چیئر مین غلام محمد بلوچ نے 2005کوبی این ایم کی جانب سے ایک پمفلٹ کے ذریعے بلوچستان کے ہر شہر، قصبے اور کوچے میں عوام تک پہنچایا۔اس سے قبل بلوچستان پر پاکستانی قبضے کی مکمل تفصیلات عوام تک نہیں پہنچی تھیں البتہ تعلیم یافتہ اور سیاسی کارکنان کوصرف اس دن کے حوالے سے آگاہی تھی۔
اب 27مارچ ہر سال بلوچستان اور بلوچستان سے باہر یوم سیاہ کے طورپر منایا جاتا ہے اور بلوچ وطن کے نوجوان نسل کو اس دن کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے کہ کس طرح برٹش سرکار کی ایماپر پاکستان نے بلوچستان پر جبری قبضہ کیا تھا۔

Exit mobile version