Site icon Daily Sangar

جنرل کمپنی نے لاپتہ جنرل بلال اکبر کوسعودیہ میں سفیر مقرر کردیا

پاکستان کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کو سعودی عرب میں سفیر مقرر کیے جانے کے فیصلے پر کئی حلقوں میں بحث چھڑ گئی ہے۔ اس تقرری پر سیاسی حلقوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی تنقید جاری ہے۔

سوشل میڈیا پر کئی صارفین اس تقرری پر پی ٹی آئی حکومت کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ کچھ ناقدین اسے مشرق وسطی کے بدلتے ہوئے حالات سے جوڑ رہے ہیں اور کچھ کے خیال میں یہ تقرری سویلینز کے لیے سکڑتے اسپیس کی عکاس ہے۔

واضع رہے کہ پاکستانی فوج کے سیاست میں مداخلت ے حوالے سے بلال اکبر اور جنرل باجوہ ٹیم مابین شدید اختلافات کےبعد بعض حلقوں کے مطابق بلال اکبر کو لاپتہ رکھا گیا تاکہ فوج کے سیاست میں مداخلت کے سوچ کو لیکر پی ڈی ایم کے موقف کو کمزور کیا جاسکے لیکن سیاست میں فوج کے مداخلت کی مخالفین حلقے بلال اکبر کے فوجی قیادت کی ایما پر گمشدگی کو منظر عام پر لے آئے جس سے جنرل باجوہ ٹیم کی مزید سبکی ہوئی ۔اور اس سبکی کوزائل کرنے کیلئے فوجی اسٹیبلشمنٹ نے بلال اکبر کو منظر عام میں لاکر بطور لالچ ان کی سعودی عرب میں سفیر کی تقرری کی۔اس طرح بلال اکبر بھی اب سیاست میں فوج کی مداخلت کے حمایتیوں میں شمار ہوگئے۔

جنرل بلال اکبر ڈی جی رینجرز سندھ کے علاوہ فوج میں مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ ان کی تقرری ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب سویلین عہدوں پر ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسران کی تعیناتی پر پہلے ہی کئی حلقے شور مچارہے ہیں، جن کے خیال میں ملک کے کئی اہم انتظامی عہدوں پر فوجی افسران براجمان ہے۔

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ تقرری نہ صرف سویلین بیورکریٹس کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ ایسی تعیناتی سے سول سروسز کی کارکردگی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ پریسٹن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا خیال ہے کہ سفارتکای اور خارجہ امور کے لیے بہت سخت تربیت اور وسیع تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر امان میمن مزید کہتے ہیں،”سفارتکاری اور خارجہ امور میں کئی اصطلاحات ہوتی ہیں، جنہیں صحیح طور پر سمجھنے کے لیے کافی وقت اور تجربہ چاہیے ہوتا ہے۔ بعض اوقات دو ممالک کے درمیان مشترکہ اعلامیے کے الفاظ کو کئی بار تبدیل کیا جاتا ہے اور کیریئر سفارت کار اس میں مہارت حاصل کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں انہیں نظر انداز کر کے فوجی افسران کو لگا دیا جاتا ہے، جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔”

معروف تجزیہ نگار اورمصنفہ عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ یہ تقرری مشرق وسطی کے بدلتے ہوئے حالات کا عکاس ہے،”ہمارے طاقت ور حلقے اور سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی سیاست دان یہ جرا¿ت نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ شیخ رشید جیسا آدمی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے سے ڈرے گا کیونکہ اس کی ایک بھاری سیاسی قیمت ادا کرنی پڑے گی لیکن ملک کے کرتا دھرتا ایسا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ سکیورٹی نقطہ نظر سے فائدہ مند ہو گا۔ تو ایسے نازک موقع پر سفیر ایسا ہونا چاہیے، جو جی ایچ کیو کے قریب ہو۔”

پاکستان کے سابق سفیر برائے اقوام متحدہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں تنقید کا ایک رواج چل نکلا ہے اور یہ کہ بلال اکبر کی تقرری پر تنقید بے جا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور یہ ضروری نہیں کہ سفارت کار پروفیشنل یا کیریئر افسر ہی ہو، “امریکا میں کئی سفیر اور اہم عہدیدار نان کیئریر ہی رہے ہیں۔ تو نان کیریئر سفیر رکھنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں جنرل جہانگیر کرامت سمیت کئی سفیر فوج کے ریٹائرڈ لوگ رہے ہیں۔ ملک کے بہترین وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان بھی فوج سے تھے۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”ہماری پارلیمنٹ اور سویلین اداروں میں صورت حال زوال پزیر ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے خصوصی نوعیت کے تعلقات ہیں، جس میں سکیورٹی ایک اہم نقطہ ہے۔ تو اس لحاظ سے بھی یہ تقرری بالکل درست ہے۔

معروف سیاسی مبصر اور روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کے سابق ایگزیکیٹو ایڈیٹر ضیا الدین کا کہنا ہے کہ فوج سے سفیروں کی بھرتی ضیاءالحق کے دور میں شروع ہوئی۔ “پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں زیادہ تر کیریئر سفارت کار ہوتے تھے۔ ضیاءکے دور میں خارجہ پالیسی آئی ایس آئی کے پاس چلی گئی کیونکہ خطے میں افغان جہاد چل رہا تھا۔ فوجیوں کا سول سروس میں کوٹا مختص ہو گیا اور پھر یہاں سے سفیر بھی لیے جانے لگے۔”

Exit mobile version