Site icon Daily Sangar

خیبرپختونخوا میں مشتعل ہجوم کا ہندو پیشوا کی سمادی اور مندر میں توڑ پھوڑ

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے علاقہ ٹیری میں ایک مشتعل ہجوم نے ہندوﺅں کے پیشوا، پرم ہنس کی سمادی اور ملحقہ مندر میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے اسے شدید نقصان پہنچایا ہے۔

پولیس کے مطابق انہوں نے سمادھی کے احاطے کو کنٹرول میں لے لیا ہے اور تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کرک کے ضلعی پولیس آفیسر، عرفان اللہ، نے بتایا ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے اور گرفتاریوں کے سلسلے میں کارروائی جاری ہے۔

دنگا فساد کے دوران وہاں موجود ایک مقامی رہائشی نےمیڈیا کو بتایا کہ ’ایک مذہبی جماعت کے کچھ مقامی عمائدین کی سربراہی میں ایک ہزار سے زائد افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور ہندوو¿ں کی عبادت گاہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ تقاریر ہونے کے بعد مشتعل ہجوم سمادھی کی طرف بڑھا اور توڑ پھوڑ شروع کردی۔

وزیراعلی خیبر پختونخوا، محمود خان نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو اس میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروئی عمل میں لا کر رپورٹ کرنے کا کہا گیا ہے۔ ان کے مطابق اقلیتوں کی جان و مال اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔

علاقہ ٹیری کے رہائشی وسیم خٹک نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ ہندوﺅں کے گرو، پرم ہنس جی مہاراج کا جب 1919 میں انتقال ہوا تو ان کی سمادھی ٹیری میں دفن کی گئی۔ جس کی زیارت کے لئے صوبہ سندھ کے بیشتر حصوں سے ہندو برادری کے افراد آتے رہتے تھے۔ تاہم 1997 میں مشتعل ہجوم کے حملے میں مندر کو مسمار کر دیا گیا تھا۔

وسیم خٹک کے مطابق ہندو برادری نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ جس کے جواب میں سپریم کورٹ نے اپنے 2015 کے فیصلے میں ہندو برادری کو دوبارہ مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔

وسیم خٹک کے مطابق ہندو برادری کے ارکان جب زیارت کے لئے ٹیری آتے تھے تو ان کا قیام صرف چند گھنٹوں کے لئے ہی ہوتا تھا۔ کیونکہ ان کے لئے وہاں آرام کرنے کی کوئی جگہ موجود نہیں تھی۔

چند ماہ قبل آرام گاہ کی غرض سے ہندو برادری نے مندر سے ملحقہ ایک گھر خریدا جس سے علاقے کے افراد میں یہ تاثر پھیلا کہ ہندو دوبارہ سے اپنی آبادی بڑھانا چاہتے ہیں۔ جسے انہوں نے گرانا چاہا لیکن مشتعل ہجوم نے پوری عمارت کو نقصان پہنچایا۔

مندر کے منتظم پریم تلریجا کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چھ مرلہ کی جگہ پر ایک ہال تعمیر کیا گیا۔ جس کے اندر ایک چھوٹے سے کمرے میں گرو کی تصویر اویزاں کی گئی۔ جب کہ ایک چھوٹا سٹور، ایک کچن اور دو الگ الگ باتھ روم مرد اور خواتین کے لئے بنائے گئے۔

غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے پریم تلریجا نے مزید بتایا کہ دور دراز سے آنے والی خواتین کے بندوبست کے لیے مندر سے ملحقہ ایک گھر کو خریدا گیا لیکن علاقے کے افراد نے اسے سول کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ تاہم 22 دسمبر کو ہندو برادری اور علاقے کے افراد کے درمیان ایک معاہدہ کے ذریعے معاملہ افہام و تفہیم سے حل کیا گیا جس میں ضلعی پولیس آفیسر اور ڈپٹی کمیشنر کے دستخط موجود ہیں۔

مندر کے منتظم نے مزید بتایا کہ تاہم انھیں کچھ ذرائع سے اطلاع ملی کہ بدھ کے روز ایک جلسہ کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس کے بعد مندر کو نذر آتش کیا جا سکتا ہے۔ وہ یہ تمام معاملہ پولیس کے علم میں لائے۔ جس کے بعد انھیں تحفظ کی یقین دہانی دلائی گئی۔

ان کے مطابق وہ یہ سب سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بروقت معلومات ہونے کے باوجود اتنا بڑا سانحہ کیسے واقع ہو گیا۔

پریم تلریجا کے مطابق کرشن گرو پرم ہنس مہاراج کے مرید پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس لحاظ سے یہ مندر ہندو برادری کے لئے بہت عقیدت کا حامل ہے۔ ان کے مطابق مندر کا نام کرشن دوارہ ہے۔

سیکورٹی لیپس کو رد کرتے ہوئے ضلعی پولیس آفیسر عرفان اللہ نے بتایا کہ انھیں جلسے کے بارے میں بتایا ضرور گیا تھا تاہم انھیں سیکورٹی کے حوالے سے گارنٹی دی گئی تھی۔ تاہم جلسے میں ایک شخص کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد ہنگامہ برپا ہو گیا جو کہ قابو سے باہر ہو گیا جس کا نتیجہ مندر کے انہدام کی صورت میں برآمد ہوا۔

انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے اپنی ایک ٹویٹ میں واقعے کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کو یقینی بنائے۔

Exit mobile version