Site icon Daily Sangar

سندھ سوگوار ہے- محمدخان داؤد


سندھ سوگوار ہے
سندھ ایسا ہی سوگوار ہے جب لطیف اپنی بھٹ چھوڑ کر بھٹ میں ہی دفن ہو رہا تھا اور سندھ سوگوار تھا
سندھ ایسا ہی سوگوار ہے جب سندھ کے قومی کارونجھر کو رات کے شروعاتی پہروں میں زیر دیا گیا اور اس قومی کارونجھر نے بھی ہنس ہنس کے زہر پیا سندھ کے اداس آکاش پہ اکیلا چاند سب دیکھ رہا تھا قومی کارونجھر کو دیکھ کر چاند پیلا پیلا ہو چلا تھا اور اس قومی کارونجھر کی لاش سندھ میں ایسی رُل رہی تھی جیسے سندھ کے پٹھے پرانے دامن میں غریبوں کے آنسو رُلتے ہیں۔آج تک نہ تو سندھ کے دامن میں غریبوں کے وہ آنسو جذب ہو ئے ہیں اور نہ وہ لاش جو اکیلی تھی جو اداس تھی آج سندھ ایسا سوگوار ہے
آج سندھ ایسا سوگوار ہے جیسا سندھ کے راج دھانی میں رات کے پچھلے پہروں میں پولیس گردی کی گئی پولیس نے اس انسان پر گولیاں برسائیں جس پر سندھ گلاب بھی احتیاط سے برستا تھا
وہ شخص گولیوں کی زد میں تھا سندھ سوگوار تھی
آج سندھ ایسا سوگوار ہے جیسا اس بوڑھے کے بیٹے کو وردی والے لے گئے اس بوڑھے استاد نے اپنے من دھن سے سندھ کی خدمت کی تھی سندھ کی جھولی میں کئی الفاظوں سے بھری کتابیں دے تھیں اس بوڑھے استاد نے اپنے بیٹے کا نام بھی راجہ ڈاہر رکھا تھا وہ راجہ ڈاہر بھی قاسم کی سنگینوں کے منھ میں چلا گیا اس بوڑھے استاد کو کئی ماہ بعد راجہ ڈاہر کی مسخ شدہ لاش دی گئی اور سندھ سوگوار تھا


آج سندھ ایسا ہی سوگوار ہے جیسا جب تھا جب بارود کی آگ میں قلندر کے صحن کو جلایا گیا اس صحن میں رقص کرتے فقیر ایسے جل گئے جیسے بارود میں کوئی گلاب جلا ڈالے سندھ کے رقص کرتے دامن میں معصوفقیر بارود سے جلا دیے گئے قلندر کا صحن بارود کی بوُ سے بھر گیا اور سندھ سوگوار رہا
آج سندھ ایسا ہی سوگوار ہے جب سندھ کے کسی گھر میں لال دلہا جیسے بیٹے کی گھائل لاش لائی جا ئی اور روتی بہن اس اداس گھائل لاش پر اپنے سر کی چادر ڈال دی اور وہ چادر اس اداس لاش پر وہیں سوالیہ نشان(؟) بن جائے آج سندھ ایسا ہی سوگوار ہے
آج سندھ ایسا ہی سوگوار ہے جیسا پنڈی کوفہ میں سندھ مدینہ کی بیٹی کو بارود کے منھ میں دیا گیا اور سندھ نے اپنے چہرے پر سیاہ چادر ڈال دی تھی
آج سندھ ایسا ہی سوگوار ہے جب سندھ کے کسی گھر میں آزادی پسند کی لاش لائی جا تی ہے اور سندھ میں سورج جلدی غروب ہو جاتا ہے
آج سندھ ایسا ہی سوگوار ہے جب سندھ میں وردی والے نوس نوس کرتے گھروں میں داخل ہو تے ہیں اور اس آزادی پسند کو تفتیش کے نام پر اپنے ساتھ لے جا تے ہیں اور پھر وہ اپنے گھر کبھی نہیں لوٹتا
آج سندھ ایسا ہی سوگوار ہے جب کسی آزادی پسند کو کہیں سے اُٹھا لیا جاتا ہے پھر اسے ویرانے میں لے جایا جاتا ہے پھر اس کے نحیف جسم پر بارود باندھ دیا جاتا ہے پھر اس بارود کو اُڑا دیا جاتا ہے
پھر نہ آزادی رہتی ہے
نہ آزادی کے خواب رہتے ہیں
نہ وہ جسم رہتا ہے جو بہت پیارا تھا جو بہت نازک تھا
اور ریاست کی روایئتی میڈیا میں ایسی خبریں چلا دی جا تی ہیں کہ
”بارود بناتے،بارودی جیکٹ پہنتے را کا دہشت گرد مارا گیا“
ایسی خبروں پر بھی سندھ اپنے چہرے پر سیاہ کپڑا لپیٹ لیتا ہے اور سوگوار رہتا ہے
آج سندھ ایسا سوگوار ہے
آج سندھ ایسا سوگوار ہے جب معصوم ماؤں کو اپنے گھروں،اپنے محلوں،اپنی گلیوں،اپنے بستروں سے نکال کر مسافر بنا دیا جاتا ہے
وہ کچھ نہیں جانتی
انہیں کچھ خبر نہیں ہو تی
وہ تو سوائے ماں کی بولی کے اور کوئی بولی بھی نہیں جانتی
وہ روتی بھی ہیں تو اپنی بولی میں
وہ ہنستی بھی ہیں تو اپنی بولی میں
پر جب ان پر دکھ مسلط کیا جاتا ہے
تو پھر وہ تو ہنستی بھی نہیں
ان کا دل بھی دھڑکتا ہے
تو اپنی بولی میں
پھر وہ مسافر بن جا تی ہیں
اور شہر کی گلیوں میں ایسے رُلتی نظر آتی ہیں جیسے بن قبیلے کے تنہا مسافر
آج سندھ ایسا سوگوار ہے
بانک کریمہ بلوچ کے اندوناک قتل پر سندھ ایسا ہی سوگوار ہے
جیسا پنہوں کے بھائیوں نے سسی کو مسافر بنا ڈالا اور سسی پہاڑوں اور پتھروں کے بیچ رُلتی رہی
اور سندھ سوگوار رہا
بانک کریمہ بلوچ
مریم تھی،سسی تھی،قرت العین طاہرہ تھی
اپنے دیس کی ماروی تھی
اگر کچھ بھی نہ تھی تو تمپ کی کریمہ تو ضرور ضرور تھی
سندھ اپنے دیس کی کریمہ کے افسوس ناک قتل پر سوگوار ہے
آج اگر آنکھیں بلوچستان کی ہیں تو اس آنکھ میں آنسو سندھ کا ہے
آج اگر دامن بلوچستان کا ہے تو اس دامن پر گرتے سب آنسو سندھ کے ہیں
سندھ کریمہ کے قتل پر ماتم کناں ہے
سندھ جانتا ہے مظلوم بیٹیوں کے قتل کے بعد کیا ہوتا ہے
سندھ کو معلوم ہے کہ پیاری بیٹیوں کے افسوس ناک قتل کے بعد
مائیں
اور دھرتی اپنا توازن کھو بیٹھتی ہیں
کریمہ کے قتل پر سندھ بھی اپنا توازن ایسے ہی کھو چکا ہے
جیسے دھرتیِ بلوچستان
اے عظیم دھرتی بلوچستان
اے آزادی کی محبت میں تڑپتی عظیم دھرتی
اے سرمچاروں کی ما ں
اپنی مظلوم بہن سندھ کی تعزیت قبول کرو
آج سندھ سوگوار ہے

Exit mobile version