Site icon Daily Sangar

بلوچستان و پاکستان میں جبری گمشدگیوں کیخلاف اٹھنے والی آوازوں میں اضافہ

اداریہ

ماہنامہ سنگر۔ دسمبر شمارہ

بلوچستان سمیت پاکستان کے صوبوں سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بھی لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگین بحران بن چکاہے۔ پاکستان کے سیکورٹی فورسز ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو اٹھاکراذیت رسانی سے قتل کرکے مسخ لاشیں پھینکتے ہیں لیکن ریاست ِپاکستان کی جانب سے ہمیشہ تردید ہی سامنا آتا رہاہے اس مسلسل تردیدی عمل کے دوران بھی ایسے شواہد اوربلوچستان میں جاری فوجی آپریشنوں سے متعلق سرکاری اعلان نامے سامنے آتے رہے ہیں جن کے مطابق اب کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ انسانیت سوز کام ریاست ہی کررہی ہے۔ ریاست کے باقاعدہ اورروایتی ادارے ہی لاپتہ افراد و مسخ لاشوں کے ذمہ دار ہیں اور ریاست کے باقاعدہ اورروایتی اداروں کے ساتھ ساتھ فوج اور خفیہ اداروں کی سرپرستی میں قائم ڈیتھ سکواڈ زبھی بلوچستان میں فوج کے متوازی ادارے کا رخ اختیار کرچکے ہیں اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں فوج اور خفیہ اداروں کے معاون کے طورپر کام کررہے ہیں, گوکہ ریاست کے باقاعدہ اداروں کے برعکس ان کی شکل و ہیئت میں تبدیلی آتی رہتی ہے لیکن اس تبدیلی کے عمل میں بھی ان ڈیتھ سکواڈز میں مزید جرائم پیشہ افراد شامل کرکے انہیں خطر ناک منظم کیاجا چکاہے۔

اب تو نوبت یہ ہے کہ لاپتہ افراد کے لئے آواز اٹھانے والوں کو بھی فورسز اٹھاکرلاپتہ کررہے ہیں۔یہ وہ بلوچ ہیں جو اپنی آفاقی اور بنیادی حقوق کیلئے آواز بلندکررہے تھے۔
گزشتہ روزبلوچستان یونیورسٹی کے 3پروفیسر زمستونگ سے لاپتہ ہونے کے بعد شدید عوامی رد عمل کے بعد بازیاب ہوگئے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے تین پروفیسرز ڈاکٹر لیاقت سنی، شبیر شاہوانی اور پروفیسر نظام شاہوانی پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئے۔پروفیسرز کی گاڑی مستونگ کے نواحی علاقہ غلام پڑینز سے برآمد ہوئی ہے۔
ڈاکٹر لیاقت کے علاوہ باقی پروفیسرز بازیاب ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ انھیں تاوان کے لیے اغوا کیا گیا،جبکہ پروفیسر لیاقت دو روز بعد شدید عوامی دباؤ کے بعد بازیاب ہوئے۔کوئٹہ سے اہم ذرائع نے بتایا کہ مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے ڈاکٹر لیاقت کو اغوا اس لیے کیا کہ وہ وقتاً وقتاً لاپتہ افراد کے لیے آواز اُٹھاتے تھے اور انھیں بھاری تاوان کا کہا گیا۔لیاقت سنی بلوچستان یونیورسٹی میں براہوئی ڈیپارٹنمنٹ کے چیئرمین ہے جبکہ وہ براہوئی زبان پر تحقیق کے حوالے سے جانے جاتے ہیں علاوہ ازیں وہ راہشون ادبی دیوان کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جبکہ انہوں نے براہوئی میں براہوئی جدیدی شاعری پر پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔اور ان کی شاعری کا مجموعہ چکار بھی منظر عام پر آچکا ہے۔
براہوئی زبان و ادب کے حوالے سے بھی ان کی6 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
بلوچ تنظیموں،وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق40 ہزار سے زائد بلوچ ریاستی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہوئے ہیں اور ان کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور ان میں سے سینکڑوں افراد کو اجتماعی قبروں میں دفنایا گیاجبکہ سینکڑوں کو دوران حراست تشدد بعد شہید کیا گیا۔
بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال تشویشناک حد تک سنگین ہو چکا ہے جو یقینا اس خطے اور عالمی انسانی حقوق کے ا داروں و مہذب اقوام کے لیے ایک چیلنج ہونے کا سبب ہونا چائیے مگر بظاہر تاحال کسی بھی عالمی ادارے یا ملک کی جانب سے کوئی ایسا مثبت اقدام سامنے نہیں آیا جس سے بلوچ قوم کوتھوڑی بہت اطمینان ہوجائے کہ ان کے انسانی مسئلے اور درد و تکالیف کا احساس دنیا کے مہذب اقوام کو ہے۔
سندھ کی صورت حال بھی کچھ یوں ہی ہے،لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے آج سندھ کے لوگ بھی سراپہ احتجاج ہیں،مہینوں کراچی پریس کلب،،سندھ کے کئی مقامات پر دھرنے،مظاہروں بعد بے بس لواحقین نے کراچی سے راولپنڈی(پاکستانی آرمی کیمپ،جی ایچ کیو) لانگ مارچ شروع کیا جو دس نومبر2020 کو کراچی پریس کلب سے شروع ہوا، اور اس مارچ کو آزادی مارچ کا نام دیا گیا جو سندھ سباء کے پلیٹ فارم سے کیا جا رہا ہے اور تادم تحریر یہ مارچ سندھ کے صوفی شاعر شاہ بھٹائی تک پہنچ چکی ہے۔
اسی طرح آج پختون بھی اپنی سماجی برابری و حقوق کے لیے لب کشائی کررہے ہیں تو انہیں بھی اُٹھا کر غائب کیا جا رہا ہے مگر پشتون تحفظ موؤمنٹ کے دلیر رہنما سر بہ کفن ہر فورم پر ریاستی اداروں فورسز کی کالی کرتوتوں کو دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔ منظور پشتون کی قیادت میں علی وزیر،محسن داوڈ نے پاکستانی پارلیمنٹ میں جانے کے بعد بھی وہ پشتون ہی رہے اور آج انہوں نے پاکستانی ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اس کے برعکس بلوچ قوم کے نام پر سیاست کے دعوے دار جب پارلیمنٹ تک پہنچ جاتے ہیں تو وہ بلوچ قوم پر جبر وظلم کو بھول کر شاہ کی وفاداری میں ریاست کی مظالم کا حصہ دار بن جاتے ہیں،کوئٹہ کی سخت سردی میں سینکڑوں خواتین،بچوں کی آہ فریادسے بے خبر یہ قبیل کے سیاست دان آج پاکستانی فوج اور مقتدرہ کی زبان بول رہے ہیں۔تاریخ کے احتساب سے بچنے کے لئے ان افراد کو پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں سے کچھ سیکھ لینے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان کی سنگین صورت حال میں بلوچ آزادی پسند پارٹیوں کو چاہئے کہ وہ اس مسئلے کی گھمبیرتا کو اُجاگر کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کر یں۔بیرونی ممالک میں سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کی بڑی تعداد موجود ہے اوربالخصوص بلوچ نیشنل موومنٹ کے بیرون ملک نمائندگان کو اپنی حکمت عملیوں کا ازسرنو جائزہ منظم انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔مبصرین کے مطابق اگر آزادی پسند سیاسی پارٹیوں نے لاپتہ افراد مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے لائحہ عمل طے نہیں کیا تو یقینا ریاست اس میں مزید شدت لائے گا اور اس تعداد میں کئی گناہ اضافہ ہوسکتاہے۔
الغرض جس شدت سے ریاست طے شدہ لائحہ عمل سے بلوچ کے خلاف گامزن ہے اسی شدت کے ساتھ بلوچ آزادی پسندوں کو بھی اپنی بہترین حکمت عملی ترتیب دے کر عالمی میڈیا و انسانی حقوق کے اداروں کے سامنے اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Exit mobile version